بڑے طشت کے پیچھے آفتاب چھپا ہوا ہے اور اس کے چاروں طرف سے کرنیں پھوٹ رہی ہیں ، تھوڑی دیر کے بعد وہ بلند ہوگیا اور میرا سارا گھر بلکہ قریب کا سارا علاقہ اس کی روشنی سے جگمگا اٹھا، انھوں نے اس کی تعبیر یہ لی کہ اللہ ان کو ایسا با کمال فرزند عنایت فرمائے گا جس کے وجود سے ہر طرف سنت کی روشنی پھیلے گی اور اس کے ظاہری و باطنی کمالات سے بہت لوگ فیضیاب ہوں گے،اس کے کچھ ہی عرصہ بعد احیاء سنت کا یہ درخشاں سورج ۱۲؍ ربیع الاول ۱۰۳۳ھ کو وجود میں آیا(۱)خدا کو منظور تھاکہ اس بچہ سے احیاء سنت اور ازالۂ بدعت کا بڑا کام لینا ہے اس لئے پیدا ہوتے ہی سنت یتیمی و یسیری کی تکمیل ہوئی، والد کا سایہ ان کی ولادت سے تقریباً ڈھائی مہینہ پہلے ہی اٹھ چکا تھا اور والدہ کی وفات بھی ان کی ولادت کے تین سال بعد ہوگئی اور ان کی پرورش اور کفالت کے ذمہ دار ان کے حقیقی ماموں دیوان قاضی سید ابو محمد ہوئے۔(۲)
دیوان قاضی سید ابو محمد نے اپنی اولاد سے زیادہ ان کا خیال رکھا اور پوری دلسوزی، شفقت اور محبت کے ساتھ ان کی پرورش کی، ہر چیز میں ان کو بچوں پر مقدم رکھتے تھے، پہلے ان کی خواہش اور ضرورت پوری کرتے اس کے بعد اپنے بچوں کی، انھوں نے ان کو یہ محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ وہ والدین کی نعمت سر محروم ہیں ۔
شاید یہی وجہ ہے کہ حضرت شاہ علم اللہؒ اکثر فرماتے تھے کہ میری اولاد و احفاد پر لازم ہے کہ وہ خالِ گرامی کے ساتھ تعظیم و تکریم اور حسنِ سلوک کے تمام آداب ملحوظ رکھیں کہ یہ امر میری خوشنودی کا موجب ہوگا۔
------------------------------
(۱) عجیب توفیق الٰہی ہے کہ ان کی ولادت میں بھی (جس میں کسی انسان کے عمل کو دخل نہیں ) قدرتی طور پر اتباع سنت ہوگئی۔
(۲) دیوان سید ابو محمد سید فتح عالم کے فرزند ہیں ، سید فتح عالم (جد مادری سید شاہ علم اللہؒ) سفرِ ہجرت کے بعد ان کی جگہ نصیر آباد کے قاضی ہوئے، سید ابو محمد امرائے شاہجہانی میں تھے، سلطان مراد نے کابل و ملتان کی صوبہ داری بھی ان کے سپرد کی تھی۔ اپنے والد کے بعد قاضی مقرر ہوئے ، لیکن ان ذمہ داریوں کے ساتھ عہدۂ قضا کا نباہنا مشکل تھا، اس لئے اس کو اپنے بھائی کے سپرد کیا اور دربار سے وابستہ ہوگئے۔