اور بہت سے صفات و کمالات کے حامل تھے، ۳۲؍ سال کی عمر میں سحر کا اثر ہوا اور اسی میں انتقال فرمایا، استحضار کا وقت ہوا تو سید شاہ علم اللہؒ ان کے پاس بیٹھ کر سورۂ یسین پڑھنے لگے لیکن رقت اور تأثر کی وجہ سے ایک جگہ ان کی آواز بند ہوگئی، سید ابو حنیفہ نے فرمایا(بابا چنیں باید خواند) بابا اسی طرح پڑھتے رہیں ، سید شاہ علم اللہؒ نے فرمایا جان پدر تم بھی پڑھتے رہو، انھوں نے جواب دیا کہ اس وقت اس کا پڑھنا نزولِ رحمت کاموجب ہے، میں بھی پڑھ رہا ہوں ، بوقتِ شب ربیع الاول ۱۰۸۸ھ کو اس جہانِ فانی سے عالمِ جاوِدانی کی طرف رحلت فرمائی۔
والدہ محترمہ کے رونے کی آواز ٹھیک سے ظاہر بھی نہ ہونے پائی تھی کہ سید شاہ علم اللہؒ نے فوراً منع فرمایا اور کہا کہ اگر اُف بھی کیا تو میں گھر میں قدم نہ رکھوں گا۔
گھر سے کوئی آواز اور آہٹ بھی ایسی نہیں سنی گئی جس سے اس واقعہ کا علم ہوتا، اہلِ خانقاہ کو کانوں کان خبر نہ ہوئی، شاہ صاحب نے صبح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی، نماز کے بعد خلافِ معمول مصلے سے اٹھ کر دروازے تک آئے اور خدامِ خاص میں سے ایک کو بُلاکر فرمایا کہ رات میاں ابو حنیفہ کا انتقال ہوگیا، تجہیز و تکفین کاانتظام کرنا چاہئے، اسی دن دفن کرنے کے بعد متوجہ ہوکے فرمایا : الحمد للہ میاں ابوحنیفہ اس دنیا سے دولتِ ایمان کے ساتھ گئے۔
ایک ضعیفہ روزانہ چرخہ چلایا کرتی تھیں ، گھر تشریف لے گئے، فرمایا آج چرخہ کیوں بند ہے؟ ان بڑی بی نے عرض کیا حضرت ایسا لائق و جوان بیٹا دنیا سے اُٹھ جائے اس کے غم میں ہم چرخہ بھی بند نہ کریں ؟ فرمایا یہ سب قضا و قدر کی باتیں ہیں ، اللہ کے حکم میں کسی کو دم مارنے کا چارہ نہیں ، زندگی مستعار ہے، راضی برضا رہنا چاہئے، تم اپنا کام بند نہ کرو۔(۱)
------------------------------
(۱) سیرتِ سید احمد شہیدؒ از مولانا سید ابو الحسن علی ندوی