صابرین کے درجات ان کو حاصل ہوئے جن کے متعلق قرآن مجید کا ارشاد ہے: ’’إنما یوفی الصابرون أجرہم بغیر حساب۔‘‘
مزید فرمایاکہ بندہ دو حال سے کبھی خالی نہیں ہوتا، یا تو وہ اس حال کے لئے سازگار ہوتا ہے ، مثلاً مال، نعمت اور وجاہت اس کو میسر ہوتی ہے، یا ناسازگار ہوتا ہے ، اور دونوں حالتوں میں اس کو صبر کی حاجت ہے، اگر حالات اس کے موافق ہیں ، تندرستی مال و اولاد اور دلی مُرادیں اس کو حاصل ہیں تو اس کو چاہئے کہ ان سے دل نہ لگائے، اس کو بڑھانے کی ہوس نہ کرے اور یہ سمجھے کہ یہ سب عاریت ہے اور بہت جلد اس سے جُدا ہوجائے گا، جو احوال اس کے موافق نہیں ، ان کی تین قسمیں ہیں : اول قسم وہ ہے جس میں اس کو اختیار دیا گیا ہے، جیسے طاعت و ترکِ معصیت۔ طاعت و ترکِ معصیت دونوں میں اس کو صبر کی ضرورت ہے، طاعت کا آغاز، درمیان اور آخر تینوں حالتوں میں صبر کا کام ہے۔ اولاً یہ کہ نیت کو درست کرے، دل کو ریا سے پاک کرے، اور یہ دونوں چیزیں بہت صبر چاہتی ہیں ۔ دوسرے یہ کہ طاعت کے شرائط و آداب کا پورا خیال رکھے اور اس میں کسی اور چیز کی آمیزش نہ کرے ، مثلاً اگر نماز میں ہے تو نہ کسی طرف دیکھے، نہ کسی بات کو سوچے، طاعت کے آخر کا صبر یہ ہے کہ ان طاعات کے اظہار اور ان پر عُجب سے باز رہے، معاصی میں صبر کی اہمیت ظاہر ہے اور بلا صبر کے ان سے چھٹکارا ممکن ہی نہیں ، شہوت جتنی قوی تر ہوگی معصیت اتنی ہی آسان تر، اور صبر اسی قدر دشوار تر ہوگا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ جب میں کسی بندہ کے جان و مال اور فرزند و عیال پر کوئی مصیبت نازل کرتا ہوں اور وہ صبر سے کام لیتا ہے تو مجھے شرم آتی ہے کہ میں اس کا حساب کروں اور اس کو میزان و دیوان کے حوالہ کروں ، اللہ تعالی نے حضرت جبرئیل ؑسے فرمایا کہ جس بندہ کی بینائی میں سلب کرلیتا ہوں جانتے ہو اس کو اس کا کیا بدلہ دوں گا؟ انھوں نے عرض کیا آپ زیادہ جاننے والے ہیں ! ارشاد ہوا میں