ہدف ملامت نہ بنایا جائے اس لئے کہ یہ بے موقع صلاحتیوں کا ضائع کرنااور دوست سے برسرپیکارہوناہے،بے شک اجتہادی اختلاف کے اظہار کی گنجائش موجود ہے، بشرطیکہ نیت درست ہو،زہدوتقویٰ اوراخلاص پایا جاتاہو،کتاب وسنت کااحترام ہو اور ان کو اساسِ اول قرار دیاجائے، اور جن کو اللہ نے قبولیت ومقبولیت عطافرمائی ہے اور شہرت وعموم سے نوازا ان کا بھی احترام کیاجائے۔
ان تمام چیزوں کے بجائے تمام تر توجہات اور اللہ کی دی ہوئی صلاحتیں کتاب وسنت کی تحقیق ومطالعہ اور قرآن وحدیث سے استدلال میں صرف کی جائیں ، اوراللہ نے جو زوربیان اور قوت خطابت واستدلال عطافرمایاہے ان کو شرک وبدعات اور ان کے مظاہر کی تردید میں لگایا جائے،خاص طور پران ملکوں میں جہاں اسلام عجمی فاتحین کے ذریعہ داخل ہوا،اور جہاں اکثریت غیرمسلموں کی ہے،اور مسلمان بھی ان ہی رسوم وعادات اورعقائد وتقلیدات میں ملوث ہیں ،اور جہاں طویل طویل وقفہ ایسے گذرے ہیں کہ حدیث شریف کے مطالعہ وتحقیق،اس کی نشر واشاعت، قرآن مجید میں غوروفکر ،اس کی تعلیمات کاعلم اور علاقائی زبانوں میں اس کی نشر واشاعت کاکام بندرہاہو،جیسا کہ ہمارے ملک ہندوستان کا ہے۔
(مطالعہ حدیث کے اصول ومبادی ص۷۳تا۸۴)