اس سے پہلے شروع میں عرض کیا تھا کہ امام بخاریؒ تر جمۃ الباب قائم کر کے حق کی تا ئید اور باطل کی تر دید فرما تے ہیں ، حسب عادت یہاں بھی ایسا ہی کیا ہے، اس باب کو لکھ کر معتزلہ کار د کر رہے ہیں ، معتزلہ کا مذہب یہ ہے کہ اعمال بنی آدم اور ان کے اقوال یہ از قبیل اعراض ہیں جو فنا ہوجا تے ہیں اور جب وہ فناہوجا تے ہیں تو ان کا وزن نہیں کیا جا سکتا ۔
اس کا جواب امام بخاریؒ دے رہے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ استحالہ اگر ہے تو انسان کے اعتبار سے ہے، انسان تو بہت سی چیزوں پر قادر نہیں تو اگر انسان کسی چیز پر قادر نہ ہوتو یہ کہاں لا زم آتا ہے کہ اس پر اللہ پاک بھی قادر نہ ہوں ، معلوم ہوا کہ یہ استحالہ زیا دہ سے زیا دہ عادی ہوگا نہ کہ عقلی ،اور محال عادی ممکن الوقوع ہوتا ہے اور جو چیز ممکن ہو اس کے وقو ع کی خبر اگر مخبر صادق دے تو اس کا وجود تسلیم کیا جا تا ہے۔
امام بخاریؒ فرما رہے ہیں کہ یہاں دو مخبر صادق خبر دے رہے ہیں کہ اعمال کا وزن ہوگا ایک اللہ پاک جو فرما رہے ہیں ونضع الموازین القسط کہ ہم میزان عدل قائم کر یں گے جس میں اعمال کا وزن ہوگا، دوسرے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو فرما رہے ہیں کلمتان حبیبتان الی الرحمن خفیفتان علی اللسان ثقیلتان فی المیزان دوکلموں کا میزان میں ثقل یہ ثابت کر رہا ہے کہ کلام کا وزن ہوگا، اس کے علا وہ بہت سی احادیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے، ایک حدیث میں ہے کہ قیامت میں نیک خلق سے زیا دہ کو ئی چیز وزن میں بھا ری نہ ہو گی، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نیکیاں اور برائیاں تو لی جا ئیں گی جس کی ایک نیکی بھی برائیوں پر بھا ری ہوگی وہ جنت میں جا ئے گا، اور جس کی ایک برائی نیکیوں پر بھا ری ہو گی وہ دوزخ میں جا ئے گا، اس سے ثابت ہوا کہ خود اعمال کا وزن ہوگا ۔