کرکے حضرت کو دکھلابھی دیا،حضرت نے بہت پسند فرمایا،یہ پورا مجموعہ جو اب آپ کے ہاتھوں میں ہے حضرت اقدسؒ کا دیکھا ہوا اور تصحیح کردہ ہے،حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے درس بخاری میں احقر نے اختلافی مسائل اور ان کے دلائل نہیں لکھے بلکہ احادیث کے ضمن میں اصلاح وتربیت کے متعلق جو باتیں آپ نے ارشاد فرمائیں صرف انہی باتوں کو جمع کیا ہے،کیونکہ علمی تحقیقات سے متعلق تو دفتر کے دفتر بھرے ہوئے ہیں ،اسلئے ان سب کے لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
امام بخاریؒ کی سوانح اور مختصر حالات،فضائل و مناقب پر مشتمل حضرت رحمۃ اللہ علیہ ہی کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک مضمون بھی احقر کو ملا اس کو بھی اس مجموعہ میں شامل کردیا،اخیر میں ایک مضمون ختم بخاری شریف سے متعلق ہے،وہ بھی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا لکھا ہوا ہے،جو غالباً شیخ الحدیث مولانا محمد یونس صاحب مدظلہ العالی کے درس ختم بخاری شریف کے موقع پر حضرت نے لکھا تھا،احقر نے اس کو صاف کیا،اور بعض جگہ عناوین وحوالجات کا اضافہ بھی کیا،حضرت نے اس پر بھی نظر ثانی اور تصحیح فرمائی ،ختم بخاری شریف سے متعلق وہ پورا مضمون بھی اس میں شامل ہے،یہ پورامجموعہ تیار ہوجانے کے بعد احقر نے شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدیونس صاحب کی خدمت میں پیش کیا،حضرت نے اس کوشش کو بہت پسند فرمایااور جوحصہ ختم بخاری شریف سے متعلق آپ کی تقریر پرمشتمل تھا اس کے کچھ حصہ کوبغور سنا،بعض مقامات پر اپنی رائے ظاہرفرمائی کہ پہلے میں یہ کہتاتھا،اب یہ کہتاہوں ،اور فرمایاکہ اس تقریر کو حاشیہ میں لکھ دینا،اور مزید فرمایاکہ مولانا صدیق احمدصاحبؒ کی تمام باتوں کو پوراکاپوراشائع کردو،یہ فائدہ سے خالی نہیں ،اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل وکرم سے اس حقیر کوشش کو قبول فرمائے،اور حدیث پاک سے شغف رکھنے والے حضرات خصوصاً طلبہ واساتذۂ حدیث کے لئے اسکو مفید اور نفع بخش بنائے،آمین ۔
محمد زید مظاہری ندوی استاد حدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ ۱۰/جمادی الثانی۱۴۳۶ھ