(۴) تعلیم دین سے اشتغال اور اشاعت دین کی مکمل فکر۔
(۵)تبلیغ سے حتی الوسع ربط۔
(۶)تزکیہ واصلاح کی غرض سے اہل اللہ سے تعلق اور ان کی ہدایات پر عمل۔
(۷) اصلاح فیمابین المسلمین کا اہتمام اور منازعت سے کلی گریز۔
(۸)قدرے نوافل کا اہتمام۔
(۹)اپنے اندر اللہ پاک کی محبت پیداکرنے کی فکر۔
محمدیونس مظاہر علوم سہارنپور ۱۲/۷/۱۴۱۱ھ
دوسرا مکتوب: عزیزم سلمہ ……السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
دین سیکھنا اور اس پر عمل کرنا اور دوسروں کو سکھانا سبھی ضروری ہے تدریس وتعلیم میں بھی مشغول رہنا چاہئے اور حسب استطاعت تبلیغ میں بھی حصہ لینا چاہئے حدیث پاک میں ہے: ’’إن اللّٰہ تعالی لم یبعثنی معنتا ولامتعنتا ولکن بعثنی معلمامیسرا‘‘
رواہ احمد (۳/۳۲۸)ومسلم (۱/۴۸۰) عن جابر، مسند دارمی سنن ابن ماجہ ص:۲۱میں عبد اﷲ بن عمرو بن العاص کی حدیث میں إنما بعثنی مُعلِّمًا ہے۔ دیکھو مشکوۃ ص:۳۶۔
مسند احمد میں ۴/۱۰۱حضرت معاویہ کی حدیث میں ہے إنما انا مبلغ واﷲ یہدی،(مسلم ۱/۴۸۲)ترمذی ۴/۲۰۵میں حضرت عائشہ کی حدیث میں ہے:
إن اﷲ أرسلنی مبلغا ولم یرسلنی متعنتاہے یہ مسلم کے الفاظ ہیں ، ترمذی کے الفاظ: إنما بعثنی اﷲ مبلغا ولم یبعثنی متعنتاہیں وفی سندہ انقطاع۔
العبد محمد یونس عفا اللہ عنہ (شیخ الحدیث جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور)