جماعت کے ساتھ جاتا۔ قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میںمیری جان ہے میری دلی آرزو ہے کہ میں راہ خدا میں شہید کیا جائوں اور مجھے پھر زندہ کر دیا جائے اور میں پھر شہید کیا جائوں اور پھر زندہ کیا جائے اور پھر میں شہید کیا جائوں پھر زندگی عطا فرمائی جائے اور شہید کیا جائوں۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
راہ خدا میں شہید ہونا سب گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے سوائے قرض کے۔
شہادت کی تکلیف:
شہید ہونے والا بندہ قتل کئے جانے کی بس اتنی ہی تکلیف محسوس کرتا ہے جتنی تکلیف تم میں سے کوئی آدمی چیونٹی کے کاٹ لینے کی محسوس کرتا ہے۔
کیونکہ اسی وقت جنت میں جو ٹھکانا ہے وہ اس کے سامنے کر دیا جاتا ہے جنت کے اس نظارہ کی لذت و محویت بھی ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے قتل کی تکلیف کا محسوس نہ ہونا قرین قیاس ہے۔
جنت کے دروازے تلواروں کے سائے تلے ہیں۔ اللہ کے راستہ میں جان کی بازی لگانے والے مجاہد شہید ہوتے ہیں تو جنت کے دروازے کھلتے ہیں وہ اس میں داخل ہو جاتا ہے۔
حضرت علی t کی ٹانگ سے (نماز کی حالت میں) تیر نکالا تو تکلیف نہیں ہوئی۔
شہید زندہ ہے:
(القرآن: سیپارہ ۴: سورہ آل عمران رکوع ۱۷: آیت ۱۶۹)
ترجمہ و مفہوم: ’’جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہر گز انہیں مردہ نہ خیال کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں روزی پاتے ہیں‘‘۔
یہ آیت حیات روح و جسم دونوں پر دلالت کرتی ہے۔ جسم قبروں میں محفوظ رہتے ہیں۔ مٹی ان کو نقصان نہیں پہنچاتی بکثرت معائنہ ہوا ہے کہ اگر کبھی شہداء کی قبریں کھل گئیں تو انکے جسم تروتازہ پائے گے۔ (تفسیر خازن)
ثابت بن قیس انصاری t :
یہ صحابی مدینہ منورہ میں قبیلہ خزرج کے سردار اور خطیب اعظم تھے خطیب رسول e کہلاتے تھے۔ کاتب وحی بھی رہے جب قرآن میں آیت نازل ہوئی کہ اپنی آوازوں کو آپ e کی آواز سے بلند نہ کرو تو گھر میں گوشہ نشین ہوگئے کیونکہ ان کی آواز بلند تھی۔ تو آپ e نے بلا کر فرمایا یہ آیت آپ کیلئے نہیں یا آپ ان میں سے نہیں۔ پھر گوشہ نشیں ہوئے جب آیت نازل ہوئی کہ اللہ اترانے والوں (فخر کرنے والوں) کو پسند نہیں کرتا تو آپ e نے بلوا کر فرمایا ’’آپ ان میں سے نہیں اچھی زندگی گزارو گے، شہادت کی موت نصیب ہوگی۔ جنت میں داخل ہونگے۔‘‘ جنگ یمامہ میں مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑے۔ تین مرتبہ مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا، تو انہوں نے اور حضرت سالم t نے گڑھے کھود کر ڈٹ گئے تاکہ پیچھے نہ ہٹنا پڑے۔ شہید ہوئے۔ تو کسی نے ان کی زرہ چرالی۔ ایک صحابی کے خواب میں آئے وصیت کی کہ فلاں آدمی نے میری زرہ چرا کر لشکر کے آخری سرے پر مکان میں ہانڈی کے نیچے چھپائی ہے اور اوپر اونٹ کا کجاوا ہے۔ وہ زرہ لیکر میرے ذمہ اتنا قرض ہے وہ ادا کرنا اتنا اتنا مال میں نے چھوڑا ہے فلاں فلاں غلام کو آزاد کرنا۔ یہ وصیت خواب سمجھ کر ٹال نہ دینا۔ اس آدمی نے سپہ سالار خالد بن ولیدt کے سامنے ساری وصیت بیان کی۔ حضرت خالد بن ولید t نے امیر المومنین حضرت ابوبکر