دھونا۔ (۳) سر کے چوتھائی حصہ کا مسح کرنا۔ (۴) ایک ایک بار دونوں پاؤں ٹخنوں سمیت دھونا۔ ان میں سے ایک فرض بھی چھوٹ جائے تو وضو نہیں ہوتا۔
وضو کرنے کا طریقہ:
(۱)کسی صاف اور اونچی جگہ پر قبلہ کی طرف منہ کر کے اس طرح بیٹھیں کہ پانی کے چھنٹے زمین پر گرنے کے بعد بدن یا کپڑوں پر نہ لگیں۔ (۲)پاک ہونے کی نیت کرلیں۔(۳) بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھیں۔ (۴) تین بار دونوں ہاتھ کلائی تک دھوئیں۔ (۵) مسواک کریں۔ (۶) تین بار کلی کریں۔ (۷) ناک میں تین بار پانی ڈال کر بائیں ہاتھ سے ناک صاف کریں۔ (۸) تین بار چہرہ، سر کے بالوں سے لیکر ٹھوڑی کے نیچے تک ، ایک کان سے دوسرے کان تک اچھی طرح دھوئیں تاکہ کوئی جگہ خشک نہ رہے۔(۹) تین باردایاں ہاتھ کہنی سمیت دھوئیں۔ (۱۰) تین بار بایاں ہاتھ کہنی سمت دھوئیں۔ (۱۱) مسح دونوں ہاتھوں کو گیلا کریںپھر چھوٹی انگلیوں کے ساتھ والی بڑی انگلیوں اورہتھیلیوںکو سر کے درمیان،دائیں اور بائیں دونوں طرف اچھی طرح چھوتے (رگڑتے) ہوئے، سر کے پچھلے حصہ تک لے جا کر اٹھالیں۔ انگوٹھوں کے ساتھ والی انگلیوں سے کانوں کے اندرونی حصوں میںمسح کریں۔ انگوٹھوں سے کانوں کے پچھلے بیرونی حصوں کا مسح کریں۔ اب ہاتھوں کے الٹے حصوں سے گردن کے پچھلے حصہ کا مسح کرتے ہوئے ٹھوڑی کے نیچے تک لائیں۔ (۱۲) تین بار دایاں پاؤں ٹخنے سمت دھوئیں۔ (۱۳) تین باربایاں پاؤں ٹخنے سمت دھوئیں۔
دعا: وضو کر کے یہ دعا پڑھیں
اَللّٰھُمَّ أَجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّبِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ
(ترمذی ج۔۱، ص: ۷۸)
’’اے اللہ! مجھے بہت توبہ کرنے والوں میں سے بنا دے اور بہت پاک رہنے والوں میں سے بنا دے‘‘۔
لباس کی پاکی:
نمازی کا لباس پاک و صاف ہو۔ ایسا لباس پہن کر نماز میں کھڑے ہونا مکر وہ ہے۔ جس کو پہن کر انسان لوگوں کے سامنے نہ جاتا ہو، مثلا میلا کچیلا، کام کاج کا لباس، صرف بنیان اورپاجامہ وغیرہ۔ شلوار یاپاجامہ ٹخنے سے نیچے تک نہ لٹکے اور آستینیں چڑھا کر نمازپڑھنادرست نہیں۔ لباس کی گندگی یا ناپاکی کو دھو کرپاک کیا جاسکتا ہے۔
جگہ کی پاکی: جس جگہ نماز کو ادا کرنا ہو، وہ جگہ گندگی سے پاک صاف ہونی چاہیے۔
---
اذان
اسلام میں نماز کیلئے اعلان یا بلاوے کو اذان کہتے ہیں۔
آغاز: مدینہ منورہ میں مسجد تعمیر کرنے کے بعد جماعت کیلئے اعلان کرنے کا کوئی خاص طریقہ نہ تھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم نے اپنی اپنی رائے پیش کی تو آپ e کو کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ ہر صحابی t اسی فکر مندی میں تھا تو عبداللہ بن زید بن