یہ وہ پہاڑ ہے جس کے اوپر غار حرا واقع ہے۔ اسی غار میں پہلی وحی نازل ہوئی۔ اسی میں آپ e نبوت کے ظہور سے پہلے اللہ تعالیٰ کا ذکر فرمانے کے لئے اکثر تشریف لے جاتے۔ غار پر نظر پڑنے سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب e کیلئے خاص طور پر بنائی ہو۔ غار تک پہنچنے کیلئے کافی چڑھائی چڑھنا پڑتی ہے۔ کہیں کہیں سیڑھیوں کی طرح کے اڈے بنے ہوئے ہیں۔ چڑھائی ڈھلانی ہے۔ عام آدمی نہیں چڑھ سکتا۔ یہ پہاڑ خانہ کعبہ کے شمال مغرب میں تقریباً چار پانچ کلو میٹر کے فاصلہ پر واقعہ ہے۔ زیارت کرکے ایمان تازہ ہو جاتا ہے۔ پہاڑ کے دامن میں کچھ دکانیں ہیں۔ نفل پڑھنے کیلئے جگہ موجود ہے۔ منیٰ کی طرف جاتے ہوئے بائیں جانب ہے۔
جبل ثور:
یہ وہ پہاڑ ہے جس کے اوپر غار ثور واقع ہے۔ اس غار میں حضور پاک e نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے وقت تین دن قیام فرمایا۔ حضرت ابوبکر صدیق t آپ e کے ہمراہ تھے۔ اس غار کے منہ کے سامنے مکڑے نے جالا بنا اور پھر فاختہ نے انڈے دیے یہ پہاڑ بیت اللہ سے تقریباً پانچ چھ کلو میٹر کے فاصلہ پر مشرق شمال کی جانب واقعہ ہے۔ چڑھائی تقریباً عموداً ہے عام آدمی کیلئے چڑھنا ناممکن ہے۔ پہاڑ کے دامن میں کھڑے ہو کر ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ خدائی طاقت تھی جس کی وجہ سے حضرت ابوبکر صدیق t اپنے کندھوں پر حضور پاک e کو اٹھا کر غار ثور تک پہنچ گئے۔ دامن میں نوافل ادا کرنے کیلئے چبوترہ بنا ہوا ہے۔
مسجد عائشہ t ’’میقات‘‘ (مسجد تنعیم)
یہ مسجد بیت اللہ سے شمال کی طرف ۱۵،۱۶ کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ اس کے پاس میقات کی حد بندی کی نشاندہی کی گئی ہے اس حد کے پار جاکر مسجد عائشہ میں نفل ادا کرکے آپ عمرہ کی نیت سے احرام باندھ کر عمرہ ادا کرسکتے ہیں یہ نزدیک ترین میقات ہے۔ مسجد کافی وسیع ہے۔ سطح زمین سے اونچی ہے۔ رش کافی رہتا ہے۔ ٹریفک کا نظام تسلی بخش ہے ٹیکسی یا بس آنے جانے کیلئے عام مل جاتی ہے۔
جنت المعلیٰ اور مسجد جن و مسجد الرایہ:
اس کو حضرت خدیجتہ الکبریٰ r کا قبرستان بھی کہتے ہیں۔ یہ بیت اللہ سے شمالی بازار میں سے پیدل چلیں تو پندرہ منٹ میں بڑی آسانی سے پہنچ سکتے ہیں۔ یہ قبرستان حضور پاک e کے خاندان والوں کا ہے۔ اسی قبرستان میں حاجی امداد اللہؒ دفن ہیں یہ قبرستان ایک پہاڑی کے دامن میں ہے قبروں کا نام و نشان نہیں صرف چھوٹے چھوٹے پتھر رکھے ہوئے ہیں۔ حجاج اس کی زیارت کیلئے حاضر ہوتے ہیں۔ بیت اللہ سے قبرستان جاتے ہوئے راستہ میں مسجد جن آتی ہے۔ یہ وہ مسجد ہے جہاں جنوں نے اسلام اس وقت قبول کیا جس وقت حضور پاک e طائف سے لہولہان ہو کر واپس مکہ لوٹے تھے۔ ان جنوں میں سے ایک جن نے سب سے پہلے مدینہ منورہ میں ایک لڑکی کے ذریعے حضور پاک e کی نبوت کی اطلاع دی تھی جو کہ تصدیق کرنے پر صحیح خبر ثابت ہوئی تھی۔ مسجد بہت بڑی نہیں ہے لیکن قابل دید ہے۔ مسجد الرایہ وہ مسجد ہے جس جگہ آپ e نے فتح مکہ کے وقت جھنڈا نصب کیا تھا۔ یہ بھی جنت المعلیٰ کے قریب ہے۔ یہ قبرستان کے بالمقابل سڑک کے پار مشرقی جانب واقع ہے۔