صدیق t کی خدمت میں تمام وصیت بیان کی تو امیر المومنین نے وصیت پر عمل کرنے کا حکم صادر فرمایا، تو وصیت کے مطابق اس مکان کی تلاشی لی گئی تو زرہ ملی باقی وصیت بھی سچ ثابت ہوئی۔
حضرت اسودراعی t :
غزوہ خیبر کے دوران آپ e پڑائو ڈالے ہوئے تھے۔ اسود راعی t اپنے مالک کی بکریاں چراتے ہوئے ادھر نکل آئے۔ آپ e کی زیارت کی ایمان قبول کرلیا۔ بکریوں کو مالک کے گھر کی طرف ہانک دیا جو خود بخود چلی گئیں۔ خود جنگ میں شریک ہوگیا۔ شہید ہوگئے۔ شام کو آپ e نے صحابہ کو حکم دیا کہ اپنے ساتھی اسود راعی t کی لاش ڈھونڈ کر لائو اکثر صحابہ کو ان کے ایمان لانے کا علم ہی نہ تھا۔ لاش کو لایا گیا تو آپ e نے اپنے جبہ مبارک سے ان کا چہرہ صاف کیا اور فرمایا ’’دیکھو !اس نے محنت تھوڑی کی مزدوری (اجر) بہت زیادہ پائی۔ اس کو جنت میں دو حوریں ملیں ہیں۔ایمان سے پہلے سیاہ رنگ بدبور دار جسم تھا اب حسیں و جمیل رنگ خوشبودار بدن بن گیا ہے۔ بغیر نماز روزے، زکوٰۃ اور حج کے اعلیٰ مرتبہ حاصل کر گیا۔‘‘
دو صحابہ ] کی تازہ لاشیں:
دو صحابہ حضرت حذیفہ الیمانی t اور حضرت جابر بن عبداللہ t کو دریائے دجلہ کے کنارے دفن کیا گیا تھا ۱۹۳۲ء کو عراق کے بادشاہ ملک فیصل اول کے خواب میں تین رات مسلسل آتے رہے کہ دریا کا پانی ہماری قبروں تک پہنچ چکا ہے لہٰذا یہاں سے ہمیں نکال کر دوسری جگہ دفن کیا جائے اسی طرح کا خواب مفتی اعظم نوری السعید پاشا کو بھی آیا۔ مفتی سے فتویٰ حاصل کرکے حج کے دس دن بعد سوموار کو دن ۱۲ بجے قبروںسے نکالنے کا اعلان کیا گیا۔ جرمن کی فلم ساز کمپنی نے ۲۰۰ فٹ اونچے چار کھمبے لگا کر ۳۰ فٹ لمبی ۲۰ فٹ چوڑی سکرین لگا کر ٹیلی ویژن کے ذریعے عوام کو زیارت کرانے کا انتظام کیا دنیا بھر کے مسلمان اور غیر مسلم زیارت کیلئے پہنچے۔ فلم ریکارڈ کی گئی۔ اتنا بڑا رش ہونے پر بھی کوئی حادثہ پیش نہیں آیا۔ سٹریچر پر لاشیں نکالی گئیں۔ سٹریچر کو شاہ فیصل مفتی اعظم، وزیراعظم جمہوریہ ترکی، شہزادہ فاروق ولی عہد مصر نے کندھوں پر اٹھا کر دوسری قبروں تک لائے۔ دونوں لاشیں تروتازہ تھیں۔ آنکھیں کھلی چمک ایسی جس کا کوئی سامنہ نہ کرسکتا تھا۔ بڑے بڑے ڈاکٹر موجود تھے۔
ایک جرمن ڈاکٹر (آنکھوں کا ماہر) نے مفتی اعظم کے ہاتھ کو پکڑ کر کہا ’’آپ کے مذہب اسلام کے حق ہونے کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہوسکتا ہے۔ ہاتھ بڑھائیے میں مسلمان ہوتا ہوں۔ لاالہٰ الا اللہ محمد الرسول اللہ یہ منظر دیکھ کر عیسائی، ہندو، یہودی کلمہ پڑھکر ہزاروں کی تعداد میں مسلمان ہوئے۔
منگلا ڈیم کی کھودائی اور شہید:
۱۹۶۴ء میں منگلا ڈیم کی کھودائی کے دوران ایک شہید کی لاش ملی جس کے سرہانے کی طرف ایک ہری ٹہنی کے سرے پر پھول پھول سے پانی ٹپک کر شہید کے ہونٹوں پر گر رہا تھا جس آدمی نے سب سے پہلے دیکھا اس نے پانی کو چکھا تو پکار اٹھا خدا کی قسم اتنا لذیذ اور شریں مزہ میں نے نہ چکھا نہ چکھونگا۔ لاش ترو تازہ تھی اس طرح جیسے ابھی شہید ہوا ہے۔ یہ شہید غالباً تحریک جہاد کا مجاہد تھا اس مجاہد نے