صفحہ ہستی سے ان کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا۔ سب سے آخر میں خاتم النبین سیدنا حضرت محمد e مبعوث ہوئے ’’دین حق‘‘ کی دعوت دی۔ کچھ نیک فطرت بندگان خدا نے دعوت کو قبول کیا۔ لیکن مکہ کے بڑوں سرداروں اور اشرار ابو جہل ابولہب وغیرہ نے بیچارے غرباء اور ضعفاء پر مظالم و مصائب کے پہاڑ توڑے۔ ان پر بھی آسمانی عذاب آتا اور صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے سید المرسلین و خاتم النبین کو رحمۃ للعٰلمین بنا کر بھیجا تھا۔ اسی بناء پر یہ طے فرما دیا گیا تھا کہ ان پر آسمانی عذاب نازل نہیں کیا جائے گا۔ ایمان والوں کے ذریعہ ان مجرموں کو سزا دلوائی جائے گی۔ اسی کا نام شریعت کی زبان میں ’’جہاد و قتال فی سبیل اللہ‘‘ ہے اب قیامت تک آسمانی عذاب کی بجائے جہاد جاری رہے گا۔ اس راستہ میں اپنی جان قربان کر دینے کا نام شہادت ہے۔ اس عمل کرنے والے کو اللہ تعالیٰ جنت میں سودرجے بلند فرمائیں گے جن میں دو درجوں کے درمیان زمین و آسمان کا سا فاصلہ ہوگا۔ راہ خدا میں شہید ہونا سب گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے سوائے قرض کے۔
اگر کسی معذوری اور مجبوری کی وجہ سے بر وقت شرکت نہ کرسکے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیت ہی پر عملی شرکت کا اجر و ثواب عطا فرمائیں گے آپ e کا ارشاد ہے ’’جنت کے دروازے تلواروں کے سائے تلے ہیں۔‘‘ شہید کو اللہ تعالیٰ سات بزرگیاں عطا فرماتا ہے۔ (۱) خون کا پہلا قطرہ گرنے پر بخشا جاتا ہے۔ (۲) جان نکلنے کے وقت جنت میں اس کا ٹھکانا دکھا دیا جاتا ہے۔ (۳) قبر کے سوال اور عذاب سے بچایا جاتا ہے۔ (۴) دوزخ کے عذاب سے نجات پاتا ہے۔( ۵) اس کے سر پر عزت کا تاج رکھا جاتا ہے۔ (۶) بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے نکاح کر دیا جاتا ہے۔ (۷) اس کی سفارش سے اس کے ستر رشتے داروں کو بخش دیا جاتا ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
صحابہ کرام ]
(تعداد اور خصائل)
وہ ابتداء میں چار تھے دار ارقم میں پنتالیس ہوگئے، شعب ابی طالب میں بیاسی بن گئے ہجرت کے وقت ان کی تعداد ایک سو پندرہ غزوہ بدر میں تین سو تیرہ تھے۔ رفتہ رفتہ بڑھتے چلے گئے۔ صلح حدیبیہ میں ان کی تعداد چودہ سو تھی فتح مکہ کے موقع پر دس ہزار غزوہ حنین میں بارہ ہزار ہوگئے غزوہ تبوک کے موقع پر چالیس ہزار اور خطبہ حجتہ الوداع میں ایک لاکھ چوالیس ہزار تھی۔ عرصہ تیئس سال میں اس قدر افرادی قوت کسی اور مذہب کا اعجاز نہیں یہ امتیاز صرف اسلام کو حاصل ہے۔ یہ لوگ اسلام میں ایسے گھل مل گئے کہ خود اسلام نظر آنے لگے اگرچہ وہ مٹی کے بنے ہوئے تھے مگر ان کی پرواز آسمانوں میں تھی۔ قاری نظر آتے تھے مگر حقیقت میں وہ قرآن تھے۔ یاروں کے حلقہ میں وہ ریشم سے زیادہ نرم اور معرکہ حق و باطل میں وہ مچلتے ہوئے طوفان بن جاتے تھے۔ وہ موت سے نہیں بلکہ موت ان سے ڈرتی تھی۔ زمانہ ان کو نہیں بلکہ وہ زمانے کو مسخر کرتے تھے ان کی خلوتوں سے خشیت الٰہی ٹپکتی تھی اور ان کی جلوتوں سے خوشبوئے مصطفائی مہکتی تھی یہ عظیم صفات انہیں حضور e سے بطور ورثہ کے ملی تھیں۔ کسی عظیم شخص نے خوب کہا ہے کہ ’’ان لوگوں کے استاد رسول اللہ e تھے ان کا نصاب کتاب اللہ تھا ان کی درس گاہ بیت اللہ تھی اور ان کا طریقہ نبی اللہ