معتکف کیلئے شرعی دستور اور ضابطہ یہ ہے کہ وہ نہ مریض کی عیادت کو جائے، نہ نماز جنازہ میں شریک ہونے کیلئے باہر نکلے نہ عورت سے صحبت کرے نہ بوس و کنار کرے، اپنی ضرورتوں کیلئے بھی مسجد سے باہر نہ جائے سوائے پیشاب پاخانہ وغیرہ کے روزہ دار ہونا اور جامع مسجد میں (یعنی جس مسجد میں پانچوں وقت جماعت پابندی سے ہوتی ہو) بیٹھنا بھی ضروری ہے۔
حائضہ (حیض والی) معتکف (اعتکاف والے) شوہر کے سر کودھوکر کنگھا کر سکتی ہے۔ (بخاری)
اعتکاف میں اللہ کا بندہ سب سے کٹ کے اور سب سے ہٹ کر اپنے مولا و مالک کے آستانے پر گویا اسی کے قدموں میں پڑ جاتا ہے۔ اسی کے دھیان میں رہتا ہے۔ اس کی تسبیح و تقدیس کرتا ہے۔
توبہ و استغفار کرکے اس کی رضا اور قرب چاہتا ہے۔ اسی حال میں اس کے دن اور راتیں گزرتی ہیں۔ وہ (اعتکاف کی وجہ سے مسجد میں مقید ہو جانے کی وجہ سے )گناہوں سے بچا رہتا ہے۔ اس کا نیکیوں کا حساب ساری نیکیا ں کرنے والے بندے کی طرف جاری رہتا ہے اور نامہ اعمال میں لکھا جاتا رہتا ہے۔
xxxx
پانچواں رکن اسلام (حج)
مسائل حج
معانی و مفہوم:
حج کے لفظی معنی ’’ارادہ یا قصد‘‘ ہے۔ حج کا اسم الحجہ معنی ’’سال‘‘ ہے اسی لئے ’’ذوالحجہ‘‘ حج کے مہینہ کا نام ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں عبادات کی نیت سے بیت اللہ کی زیارت مناسک حج ادا کرنا مراد ہے۔ لغوی معانی ’’زیارت‘‘ ہے۔
خانہ کعبہ کی تاریخ:
بعض روایتوں میں ہے کرہ ارض کرہ آبی تھا۔ زمین کی ابتداء خانہ کعبہ سے ہوئی۔ خانہ کعبہ پانی کے اوپر ایک بلبلہ کی مانند تھا۔ سب سے پہلے فرشتوں نے بنیاد رکھی۔ حضرت آدم u کے تشریف لانے پر حضرت جبرائیل u کے بتانے پر خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی گئی۔ بہشتی پتھر ’’حجراسود‘‘ کو نصب کیا گیا۔ حضرت نوع u کے طوفان کے دوران بیت اللہ کو اٹھا لیا گیا۔ پھر اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم u حضرت اسماعیل u نے بیت اللہ کی بنیاد رکھی۔ حضرت جبرائیل u نے نشاندہی کی۔ قرآن مجید میں سورہ بقرہ آیت ۱۲۷ میں اسکا ذکر ہے۔ بیت اللہ کی تعمیر کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم u کو حکم دیا۔ کہ لوگوں میں حج کا اعلان کردو۔ تولوگ دور و دراز کے راستوں سے پیادہ، پتلی اونٹنیوں پر حج کو چلے آئیں گے۔ (القران سورہ الحج سیپارہ ۱۸ رکوع ۴)
حضرت ابراہیم u نے عرض کیا ’’الٰہی! میری آواز لوگوں تک کہاں پہنچے گی؟ اللہ تعالیٰ کا حکم آیا ’’اے ابراہیم u تیرا کام پکارنا ہے میرا کام (قیامت تک کیلئے) آواز پہنچانا ۔ تو