مرکزی طور پر اس کی تحصیل وصول کا نظام ۸ھ کے بعد قائم ہوا۔ حضرت معاذ بن جبل t کو حضور پاک e نے ۹ھ کو یمن کا والی اور قاضی بنا کر بھیجا تو مالداروں سے فرض زکوٰۃ (صدقہ) وصول کرکے فقراء اور غرباء میں تقسیم کرنے کا حکم فرمایا۔
نصاب: پانچ وسق (۳۰من) کھجوریں یا پانچ اوقیہ (ساڑھے باون تولے) چاندی یا پانچ راس اونٹ یا ساڑھے سات تولے سونا یا اتنی مالیت کا مال ایک سال کی مدت پر اڑھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے۔ تجارت یا سوداگری کے مال پر زکوٰۃ واجب ہے۔ تجارتی گھوڑوں اور غلاموں پر زکوٰۃ واجب ہے جبکہ سواری کیلئے گھوڑا اور خدمت کیلئے غلام پر زکواۃ واجب نہیں خواہ ان کی قیمت کتنی ہی زیادہ ہو۔
(7½ تولے = 87.479 گرام ۔ 52½ تولے= 612.35 گرام)
مستحقین: ’’زکوٰۃ بس حق ہے مفلسوں، محتاجوں، وصولی کاکام کرنے والوں، مولفتہ القلوب، غلاموں کو آزادی دلانے، قرض کی مصیبت میں مبتلا، مجاہدوں اور مسافروں کا۔‘‘ (القرآن سورہ توبہ ۹:۶۰)
۱۔مساکین: وہ حاجت مند جن کے پاس اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے کچھ نہ ہو اور بالکل خالی ہاتھ ہو۔
۲۔ عاملین: زکوٰۃ وصول کرنے والا عملہ خواہ غنی ہو ان کی محنت اور ان کے وقت کا معاوضہ زکوٰۃ سے دیا جاسکتا ہے۔بلکہ تنخواہ مقرر کی جائے۔
۳۔ مولفۃ القلوب: ایسے لوگ جن کی تالیف قلب اور دلجوئی اہم دینی و ملی مصالح کیلئے ضروری ہو، خواہ دولت مند بھی ہوں تب بھی اس مقصد کے لئے زکوٰۃ کی مد سے ان پر خرچ کیا جاسکتا ہے بعض علماء کے نزدیک اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔
۴۔ رقاب: غلاموں اور باندیوں کی آزادی اور گلو خلاصی کے لئے زکوٰۃ خرچ کی جاسکتی ہے۔
۵۔ غارمین: جن لوگوں پر کوئی مالی بار آپڑا ہو۔ جیسے اپنی مالی حیثیت سے زیادہ قرض کا بوجھ یا کوئی دوسرا مالی تاوان۔ ان پر زکوٰۃ خرچ کی جاسکتی ہے۔
۶۔ فی سبیل اللہ: دین کی نصرت و حفاظت اور اعلاء کلمۃ اللہ کی ضرورت کیلئے زکوٰۃ کی حد سے خرچ کیا جاسکتا ہے۔ جہادکیلئے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔
۷۔ ابن السبیل: وہ مسافر جنہیں مسافرت میں ہونے کی وجہ سے مدد کی ضرورت ہو۔ زکوٰۃ کی مد سے مدد کی جاسکتی ہے۔
غیر مستحقین
’’زکوٰۃ کے اموال میں سے مالداروں اور تندرست و توانا لوگوں کا حصہ نہیں ہے جو اپنی معاش کمانے کے قابل ہوں۔‘‘ (دائود، نسائی)
۱۔ غنی: غنی سے مراد وہ آدمی ہے جس کے پاس اپنے کھانے، کپڑے جیسی ضروریات کیلئے کچھ سامان موجود ہو۔ ایسے آدمی کو زکوٰۃ لینے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
۲۔ تندرست و توانا: جو آدمی تندرست و توانا ہو اور محنت کرکے روزی کما سکتا ہو تو عام حالات میں زکوٰۃ نہیں لینی چاہیے لیکن خاص حالات میں گنجائش ہے۔