مسجد نبوی e :
حضور پاک e مکہ معظمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ میں حضرت ابو ایوب انصاری t کے گھر گیارہ ماہ تک ٹھہرے۔ مسجدکی تعمیر کیلئے جگہ دو یتیم بچے سہل t اور سہیلt سے دس دینار میں خریدی گئی ۔مسجدکے ساتھ ساتھ ازواج مطہرات کیلئے حجرے بنائے گے تو حجروں کا سائز ہر ایک کا 5۔10 یا 10½فٹ تھا۔ عائشہ r کا حجرہ مسجد سے متصل تھا جو کہ دوحصوں میں تھا ایک حصہ وفود کے ملاقات کیلئے تھا مسجد اور حجرے کچی اینٹوں کے تھے جن پر چھت کھجور کے پتوں کی تھی جو بارش کی وجہ سے ٹپکتی تھی۔ حجروں کے آگے سیاہ اون کے پردے لٹکتے تھے۔ مسجد میں اصحابہ صفہ ] کا ایک چبوترہ سائز 40x40x2 فٹ کا بنایا گیا تھا۔ خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور 88 ھ تا 91 ھ میں عمر بن عبدالعزیز کی گورنری میں مسجدکی از سرنو تعمیر کی گئی تو تمام حجروں کو منہدم کرنے پر مدینہ منورہ میں کوئی شخص ایسا نہ تھا جس کی آنکھوں میں آنسو نہ آئے ہوں۔ تعمیر کیلئے روم سے بہترین چالیس انجینئرز منگوائے گئے تھے اسی ہزار دینار کی چاندی چالیس ہزار مثقال سونے کی زنجیریں اور قندیلیں لگائی گئیں۔ ۵۵۰ھ میں اصفہان کے جمال الدین اصفہانیؒ جومسجد کے متولی تھے روزانہ روضہ اقدس کی اپنی داڑھی سے صفائی کرتے تھے جو باب جبرائیل کے پاس دفن ہیں۔ ۵۵۷ھ کو سلطان نور الدین زنگی نے سرنگ والے دو سازشی یہودیوں کو قتل کرکے روضہ اقدس کے ارد گرد لوہے اور کنکریٹ کی گہری دیوار تعمیر کی۔ اس طرح مختلف ادوار میں مسجد کی تعمیر کاکام جاری رہا۔ حتیٰ کہ ۱۲۲۳ھ کو محمود بن عبدالحمید عثمانی نے روضہ پاک کے گنبد کو گہرے سبز رنگ والی سیسہ کی چادر چڑھا کر پتیل اور تانبے کی نیچے جالیاں لگوا دیں۔
موجودہ مسجد نبویؐ کا زیادہ تر کام ترکی کے حکمران سلطان عبدالمجید کے دور ۱۲۶۵ھ تا ۱۲۷۷ھ میں مکمل ہوا۔ مسجد نبوی e کا کل رقبہ سولہ ہزار تین سو ستائیس مربع میٹرہے اور پانچ لاکھ سے زیادہ نمازیوں کی گنجائش ہے۔ شاہ فہد بن عبد العزیز نے آپe کے سارے شہر مدینہ کو مسجد بنا دیا۔
حجرہ عائشہ r کو روضہ اقدس میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
حضور پاک e کا سر مبارک مغرب کی طرف قدمیں شریفیں (مبارک) مشرق کی طرف اور روئے مبارک بجانب قبلہ جنوب کی طرف ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق t کا سر آپ e کے سینہ مبارک کے برابر اور حضرت عمر فاروق t کا سر حضرت ابوبکر صدیقt کے سینہ کے برابر ہیں۔ ابھی ایک قبر کی جگہ خالی ہے۔ بعض روایتوں میں آپ e کے فرمان کے مطابق حضرت عیسیٰ u کیلئے ہے۔ روضہ مبارک پنجگوشہ (پانچ کونوں) والا ہے۔ وجہ تعمیر اس کی عمر بن عبدالعزیز کے ہاں یہ ہے کہ لوگ چار کونوں والا خانہ کعبہ کی مشابہت کی وجہ سے طواف نہ شروع کردیں۔
گنبد خضرہ کے متصل ایک مینار ہے۔ اصحاب صفہ ] کے چبوترہ کے سامنے محراب تہجد ہے۔ یہاں آپ e نے نماز تہجد ادا فرمائی۔ روضہ کو باغ کہتے ہیں۔
ریاض الجنۃ:
منبر سے لیکر روضہ اقدس تک کے ٹکڑے کو آپ e نے جنت کے باغوں میں سے ایک ٹکڑا فرمایا جو کہ قیامت کو جنت میں شامل ہو جائے گا۔ یہ آٹھ سفید ستون پر مشتمل ہے۔