پر چڑھنے اور اترنے کی سہولت میسر ہے۔
آب زم زم:
مسجد کے اندر اور باہر جگہ جگہ پینے کے لئے آب زم زم کی سبیلیں موجود ہیں۔
احاطہ:
حضور پاک e کے دور کے مدینہ منورہ کو مسجد میں شامل کر لیا گیا ہے۔ چاروں طرف وسیع صحن میں انڈرگرائونڈ مرد حضرات اور خواتین کیلئے علیحدہ علیحدہ استنجا خانے اور غسل خانے صاف ستھرے کافی تعدادمیں بنائے گئے ہیں۔ انڈر گرائونڈ کار پارکنگ کی سہولت موجودہے مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے مردوںاور خواتین کے لئے علیحدہ علیحدہ جگہ مخصوص ہے۔ پر سکون ماحول ہے بعض بزرگوں کے نورانی چہرے دیکھ کر ایمان تازہ ہو جاتا ہے۔
مسجد میں داخل ہوتے وقت اپنا دائیں پائوں اندر رکھیں۔ اگر فر ض نماز کا وقت نہ ہو تو دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھیں قلبی سکون اور یکسوئی کے ساتھ ادب سے نظریں نیچی کئے ہوئے روضہ اقدس پر حاضر ہو کر درود و سلام ہلکی آواز سے پیش کریں۔ مدینہ منورہ میں دوران قیام پانچوں وقت باجماعت نماز کا اہتمام رکھیں روزانہ روضہ اقدس پر حاضر ہو کر درود و سلام پڑھیں۔
نافعt سے ایک روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق t جب کبھی مدینہ منورہ سے باہر جاتے اورواپسی پر روضہ اقدس پر حاضر ہو کر ’’السلام علیک یا رسول اللہ، اسلام علیک یا ابابکر‘‘ پڑھا کرتے تھے۔
قندیلیں:
سب سے پہلے ۹ھ کو تیمم بن اوس داری t شام سے قندیلیں لائے۔ مسجد نبوی e میں روشنی کی تو حضور پاک e نے دیکھ کر خوشی سے فرمایا اگر میرے ہاں کنواری بیٹی ہوتی تو اس کا نکاح تمہارے ساتھ کر دیتا۔‘‘ اس پر آپ e کے چچا زاد بھائی نوفل بن حارث t نے اپنی بیوہ بیٹی کے نکاح کی تجویز دی تو آپ e نے قبول فرماکر ان کے ساتھ ان کا نکاح فرمایا۔
انہی کو آپ e نے ملک شام میں ان کے آبائی گائوں کو بطور جاگیر تحریری طور پر لکھ دیا۔ جس پر عثمان غنیt کے دور میں ملک شام فتح ہو چکنے کے بعد اس جاگیر کا قبضہ سنبھالا ۶۰ھ میں وفات پائی۔ اس طرح مسجد نبوی e میں روشنی کی خاطر اکثر بہتر سے بہتر انتظام ہوتا رہا ہے۔
چند برکات کا ذکر
امراض:
جب حضور پاک e اور صحابہ کرام ] مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تشریف لائے۔ تو ابوبکر صدیق t ، بلال t عامر t اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہمبخار اور وبائی امراض میں مبتلا ہوگئے۔ کافی کمزور ہوگے جس کی وجہ سے کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھی جاتی تھی۔ اس پر حضور e نے وضو فرما کر رخ قبلہ کھڑے ہو کر دعا فرمائی کہ ’’اے اللہ! میں تیرا بندہ رسول مدینہ منورہ میں برکت کی دعا کرتا ہوں۔ بخار اور وبائی امراض حجفہ کی طرف چلی جائیں۔‘‘