میں طے نہیں ہوسکتی۔ قرب الٰہی کے سفر کی رفتار لیلۃ القدر میں اتنی تیز کر دی جاتی ہے کہ جو بات صادق طلب گاروں کو سینکڑوں مہینوں میں حاصل نہیں ہوسکتی وہ اس مبارک رات کو حاصل ہو جاتی ہے۔ آپ e نے فرمایا کہ اس قدر والی رات کو رمضان کی آخری دس راتوںمیں سے طاق راتوں میں تلاش کرو۔ (یعنی اکیسویں یا تئیسویں یا پچیسویں یا ستائیسویں یا انتیسویں )قرآن پاک بلکہ تمام آسمانی کتب اس مہینہ میں انبیاء پر نازل ہوئی ہیں قرآن پاک لیلۃ القدر (شب قدر) کو لوح محفوظ سے پہلے آسمان پر بیت العزۃ‘ میں بتعامہ نازل کر دیا گیا، اس کے بعد تیئس سال میں بتدریج حسب ضرورت حضور e پر نازل ہوتا رہا۔ حضور پاک e رمضان میں حضرت جبریل u سے قرآن سنتے اور سناتے ۔ (بخاری)
حضرت ابی بن کعبt (کنیت ابو المنذر) نے حضرت زربن حبیش (اکابر تابعین میں سے) کے دریافت کرنے پر فرمایا (پوری قطعیت کے ساتھ قسم کھا کر بغیر انشاء اللہ کہے’’رمضان کی ستائیسویں شب کو لیلۃ القدر کا تعین کرتا ہوں‘‘ (مسلم) یہ بات انہو ں نے رسول اللہ e سے نہیں سنی۔ بلکہ آپ e نے جو ایک خاص نشانی (شب قدر کی صبح کو سورج نکلتا ہے تو اس کی شعاع نہیں ہوتی) فرمائی تھی۔ وہ نشانی عموماً ستائیسویں شب کی صبح ہی کو دیکھی تھی۔ اس لئے یقین کے ساتھ انہوں نے رائے قائم کرلی تھی۔
اس رات حضرت جبرئیل u فرشتوں کے جھرمٹ میں نازل ہوتے ہیں اور عبادت میں مشغول بندوں کیلئے دعائے رحمت کرتے ہیں۔ اس شب دعائے مغفرت کرنی چاہئے۔
تراویح:
حضور پاک e نے ایک مرتبہ رمضان کی تین مسلسل راتوں کو مسجد میں امامت کے ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہمکو نماز پڑھائی چوتھی رات کو تشریف نہیں لائے بلکہ صبح کی نماز پڑھنے کے بعد فرمایا۔ ’’مجھے خوف اس کا ہوا کہ کہیں یہ تم پر فرض نہ کر دی جائے پھر تم اس کی ادائیگی سے عاجز و درماندہ رہ جائو!
حتیٰ کہ حضرت عمر t نے سب سے اچھے اور بہترین قاری القرآن حضرت ابی بن کعب t کی امامت میں نماز تراویح کی جماعت بندی کی خود امامت نہیں کرائی۔ دوسری جماعتوںسے اس کی نوعیت مختلف ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس t کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ e رمضان میں وتر کے علاوہ بیس رکعت پڑھتے تھے۔ حضرت امام ابوحنیفہ a کا مسلک بیس رکعت نماز تراویح ہے۔
جو دن میں روزے رکھے گا اور رات میں اللہ کے حضور کھڑے ہو کر اس کا پاک کلام (قرآن مجید) پڑھے گا یا سنے گا تو دونوں ہی۔ اس بندے کی مغفرت کی سفارش کریں گے جو قبول فرمائی جائے گی۔ تراویح (نوافل) پچھلے گناہوں کی مغفرت اور معافی کا یقینی وسیلہ فرمایاگیا ہے۔
سحری اور افطاری:
آپ e نے فرمایا سحری کھایا کرو کیونکہ سحر میں برکت ہے اور فرشتے ان کیلئے دعائے خیر کرتے ہیں۔ سحری میں تاخیر یعنی صبح صادق کا وقت قریب ہو تو کھایا پیا جائے سحری میں جلدی نہ کریں۔
صوم وصال سے آپ e نے منع فرمایا۔ مسلسل بغیر سحر و افطار کے روزے سے منع فرمایا۔ سحری کھانے اور فجر کی اذان کے درمیان پچاس آیات کی تلاوت کے بقدر (چار