میں تو یہ کہ احمد آپ ہی ہیں اور سید العالمین کے متعلق یہ کہ آپ جب مبعوث ہوئے تو آپ احمد تھے ہی نہیں۔ صرف محمد ہی تھے۔ لیکن سید الرسلﷺ فرماتے ہیں۔ انا محمد وانا احمد (بخاری ج۲ ص۷۲۷)!
حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ حضورؐ سے میں نے سنا۔ آپؐ فرماتے تھے۔ ’’سمیت احمد (مسلم ج۲ ص۲۶۱)‘‘ میرا نام احمد رکھاگیا۔ امام باقرؒ حضرت علیؓ کی شہادت پیش کرتے ہیں کہ حضرت آمنہ کو حضورؐ کی ولادت سے پہلے دوران حمل حکم دیاگیا کہ ’’ان تسمیہ احمد‘‘ آپ کا نام احمد رکھیں۔ یمن کے اسقف اعظم جارود، مدینہ طیبہ آئے اور حضورﷺ کو دیکھ کر مشرف باسلام ہوئے اور فرمایا: ’’والذی بعثک بالحق لقد وجدت وصفک فی الانجیل ولقد بشریک ابن البتول (خصائص کبریٰ بیہقی ج۱ ص۳۰)‘‘ {اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کا علمبردار بنا کر مبعوث فرمایا۔ میں نے آپ کی صفات انجیل میں پڑھی ہیں اور آپ ہی کی بشارت ابن بتول مریم نے دی تھی۔}
لیکن قزاقان روائے محمدیہ کی یہ جسارت کہ حضور تو محمد کے جلالی نام سے موسوم ہونے کے باعث اس بشارت کے مصداق نہیں ہوسکتے اور غلام احمد بن غلام مرتضیٰ ’’احمد‘‘ بھی بن گئے اور اس بشارت کا مصداق صرف وہی ہیں۔ سچ ہے ’’اذالم تستحی فاصنع ماشئت‘‘ پردۂ حیا اٹھے تو جو چاہو کرو۔ ’’ان فی ذالک لعبرۃ لاولی الابصار‘‘
مرزاغلام احمد قادیانی اور ان کے ماننے والوں کی تیرھویں وجہ کفریہ عنوان ہوا۔
شان محمدیت کو گرہن اور مرزا کا عظیم الشان کام
اگر کسی کے قلب میں ایمان کی ادنیٰ سی رمق موجود ہو تو اس کے لئے یہ پہلو بھی انتہائی توجہ کا مستحق ہونا چاہئے کہ اسمہ احمد کے مؤلف زین العابدین نے اسمہ احمد کا مصداق مرزاغلام احمد قادیانی کو ثابت کرنے کے لئے یہ جسارت بھی کی کہ حضور اکرمﷺ اور مرزاغلام احمد قادیانی کے مابین ایک مقابلہ بازی اور رحمت ہر دو عالمﷺ کے خلا ف محاذ آرائی کا انداز بیان اختیار کیا اور حضور کے بالمقابل مرزاغلام احمد قادیانی کے کام کو عظیم الشان قرار دیا۔ انہوں نے کہا: ’’مسیح موعود کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ… مسیح موعود کے ماسوائے اور کوئی شخص نہیں جو آیت مبشراً… کا ذاتی نام اور مقررہ خصوصیات کے لحاظ سے بھی مصداق ہو۔‘‘ (اسمہ احمد حصہ اوّل ص۴۹،۵۰)
مزید کہا: ’’بااعتبار نام کے اور کیا اعتبار اپنے اس عظیم الشان کام کے جس کی بنیاد