اجلاس اوّل دو بجے دوپہر کو علماء کرام جلسہ گاہ میں تشریف لائے۔ ہزاروں مسلمانوں کے علاوہ ہندو اور سکھ اصحاب بھی بکثرت جلسہ میں شریک ہوئے۔ چونکہ عورتوں کی نشست کے لئے بھی الگ انتظام کیاگیا تھا۔ اس لئے وہ بھی شامل جلسہ ہوئیں۔ سب سے پہلے قاری عبدالکریم امرتسری نے قرآن مجید کے ایک رکوع کی تلاوت کی۔ اس کے بعد مولوی ظفر الحق مدرس بٹالہ کی تحریک اور حاضرین کی تائید پر مولانا حبیب الرحمن نائب ناظم دارالعلوم دیوبند صدر قرار پائے۔ مولانا کے کرسی صدارت پر متمکن ہونے کے بعد مولوی محمد طاہر دیوبندی نے خوش الحانی کے ساتھ آیات مبارک ’’واذ قال اﷲ یعیسیٰ ابن مریم‘‘ کی تلاوت کی۔
صاحب صدر کی افتتاحی تقریر
صاحب صدر نے حمد وصلوٰۃ کے بعد جلسہ کے انعقاد کی غرض اور ضرورت اور اپنی انکساری کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ میں ناچیز حقیر ہوں۔ مگر چونکہ اس سرزمین اور اس سرچشمہ سے وابستہ ہوں۔ جس نے ہدایت کی روشنی دنیا میں پہنچائی اور جس نے تشنگان علم کو سیراب کیا اور جو دنیا بھر کا مرکز علم تسلیم کیاگیا ہے۔ پس اس منبع فیض کا ادنیٰ خادم ہونے کی حیثیت سے جو اعزاز آپ نے مجھے بخشا ہے۔ اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان تین دنوں میں آپ خدا کے فضل سے بہت کچھ مفید وپراثر مواعظ سے بہرہ انداز ہوںگے اور میں یہ بھی کہنا مناسب سمجھتا ہوں کہ ہمارے کسی مبلغ کی غرض کسی کی دشمنی یا کسی کو رنج دینا نہیں ہے۔ بلکہ حق وصداقت کا اظہار مقصود ہے۔
تقریر مولانا ابوالوفاء ثناء اﷲؒ ایڈیٹر اہلحدیث امرتسر
حمد وصلوٰۃ کے بعد مولانا نے فرمایا کہ میرے بھائیو اور میرے دوستو! میری تقریر کا عنوان ہے۔ ’’مرزاقادیانی اور ہم‘‘ میں اس میں وہی عرض کروں گا۔ جیسا حق مجھے شرعی طور پر اور قانونی۱؎ طورپر حاصل ہے۔ علماء کرام کا مرزاقادیانی سے ایک رشتہ ہے۔ مگر خیالات وعقائد میں
۱؎ مرزائیوں کی طرف سے یہ پیہم کوشش کی گئی تھی کہ قادیان میں غیراحمدی مسلمانوں کا جلسہ نہ ہو۔ چنانچہ اس اسلامی جلسہ کو روکنے کے لئے قادیانی تخت گاہ کی طرف سے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا۔ حکام کے دل میں مختلف وسوسے اور شبھات ڈالے گئے۔ لیکن جب صاحب ڈپٹی کمشنر گورداسپور نے اجازت دے دی تو مرزامحمود قادیانی نے اپنی عبادت گاہوں پر قفل لگوادئیے اور مرزا (پنجابی نبی) کو میٹ نے لکڑی کے شہتیر ڈال کر ایک گول گنبد سے بند کر دیا۔ (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)