کرنے والوں کے لئے مقرر ہیں۔ اس کا جواب اسی لب ولہجہ میں بھی ہوسکتا ہے۔ جو اس قادیانی ہفت روزے نے اختیار کیا ہے۔ مگر ہم اسے درست نہیں سمجھتے۔ بالخصوص اس لئے بھی کہ ہمارے نزدیک غصے اور اشتعال سے مسائل سلجھتے نہیں مزید بگڑتے ہیں۔ اس لئے ہم استدلال کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اس موضوع سے دلچسپی اور تعلق رکھنے والے حضرات سے عرض کرتے ہیں کہ وہ سوچیں کہ اصل مسئلہ کیا ہے اور اس کا حل کیا ہے؟
قادیانی مسلم نزاع کی تاریخ
ہر وہ شخص جسے قادیانی اور مسلم نزاع کی تاریخ اور اس کے اسباب کا علم ہے وہ اس حقیقت سے باخبر ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے جب یہ دعویٰ کیا کہ وہ خداتعالیٰ کی طرف سے الہام اور وحی کی خلعت عطاء کئے گئے ہیں اور کہ جب تک انہیں نبی اور رسول کی حیثیت سے تسلیم نہ کیا جائے۔ محمدﷺ اور آپؐ سے پہلے انبیاء پر ایمان نجات کے لئے کافی نہیں ہے تو اہل اسلام میں اضطراب کی لہر پیدا ہوئی۔ ان کے اس دعوے کو غلط کہاگیا اور اسے ختم نبوت کے منافی قرار دیا گیا۔
اس سے مرزاغلام احمد قادیانی پر اشتعال کی حالت طاری ہوئی۔ انہوں نے ایک چومکھی لڑائی لڑی، علماء کو ’’فرقہ بدذات مولویاں‘‘ (انجام آتھم ص۲۱، خزائن ج۱۱ ص۱۲۱) کہہ کر خطاب فرمایا۔ اپنی خاص تصانیف میں یہ اعلان فرمایا کہ کل مسلم یقبلنی ویصدقنی الا ذریۃ البغایا (ہر مسلمان میرے دعاوی کی تصدیق کرے گا اور مجھے برحق مانے گا۔ بجز ان کے جو بدکار عورتوں کی اولاد ہیں) (آئینہ کمالات اسلام ص۵۴۸، خزائن ج۵ ص۵۴۸)
انہوں نے برملا فرمایا: ’’دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہوگئے ہیں اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ کر ہیں۔‘‘ (نجم الہدیٰ ص۵۳، خزائن ج۱۴ ص۵۳)
مرزاقادیانی نے حالت غیض وغضب میں ان تمام اکابر علمائ، شیوخ اور اہل اﷲ کو جو ہندوستانی مسلمانوں ہی کے نہیں پوری اسلامی دنیا کے سرخیل اور بزرگ تسلیم کئے جاتے ہیں۔ انہیں ذئاب وکلاب (بھیڑئیے اور کتے) شقی وملعون، شیطان لعین، شیطان اعمیٰ وغیرہ گالیوں سے نوازا اور جن بزرگوں کا نام لے کر یہ مقدس گالیاں دی گئی ہیں۔ ان میں شیخ الکل مولانا سیدنذیر حسین دہلویؒ، مولانا احمد علی سہارنپوریؒ، مولانا عبدالحق حقانیؒ، مفتی عبداﷲ ٹونکیؒ، مولانا محمد حسین بٹالویؒ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، مولانا احمد حسن امروہی (نور اﷲ مرقدہم) ایسے اکابر دہر شامل ہیں۔ (انجام آتھم ص۲۵۱، ۲۵۲، خزائن ج۱۱ ص۲۵۱،۲۵۲)