… ان بعد جناب مولانا مولوی مفتی محمد عبداﷲ ٹونکی ’’پروفیسر اورینٹل کالج وپریذیڈنٹ انجمن حمایت اسلام لاہور‘‘ نے چند آیات قرآن کریم واحادیث نبویہ اور نیز دلائل عقلیہ سے مرزاقادیانی کے عقائد باطلہ کی سخت تردید فرمائی۔
اس کے بعد ’’مولوی احمد الدین صاحب ساکن موضع بادشاہان ضلع جہلم‘‘ نے مرزائی خیالات کی تردید میں ایک مؤثر وعظ فرمایا اور آخر میں حضرت پیر صاحبؒ نے دعاء خیر کی اور تمام حاضرین جلسہ نے آمین کے نعرے بلند کئے۔
نتیجہ یا فیصلہ جلسہ ہذا
بلحاظ جملہ حالات مرزاقادیانی وحسب روئیداد مندرجہ بالا جملہ علمائے کرام ومشائخ عالی مقام وروسائے عظام وحاضرین جلسہ اہل اسلام کی اتفاق رائے سے یہ قرار پایا کہ:
۱… مرزاقادیانی کو تحقیق حق منظور نہیں اور وہ خواہ مخواہ بزرگان دین ومعززین اسلام کو اپنی شہرت کے واسطے مخاطب کر کے دیگر اشخاص کے مصارف سے اپنی شہرت ومشہوری کرانا چاہتا ہے اور یہی اس کا مقصود ہے۔
۲… اس موقع پر اس نے حضرت پیر صاحبؒ کو معہ دیگر علماء کے خود بخود دعوت مباحثہ دے کر تکلیف دی، اور وقت پر مقابلہ میں آنے سے عمداً گریز کر کے اپنی لاف زنی سے ناحق صدہا بزرگان دین ومعززین اہل اسلام کا وقت ضائع کیا۔ بلکہ کئی ایک طرح کے ہرج وہزاروں روپیہ کے مالی نقصان کا انہیں متحمل کیا۔
۳… اس کے عقائد بالکل خلاف قرآن کریم وسنت رسول اﷲﷺ وصحابہ کرامؓ کے ہیں۔
۴… اس کے دعویٰ بالکل غلط وبے بنیاد اور لغو ہیں۔۵… وہ (یعنی مرزاقادیانی) آنحضرتﷺ کا مخالف اور خود رسالت کا دعویدار ہے۔ وہ اپنے اشتہار (معیار الاخیار) میں یوں لکھتا ہے کہ: ’’قل یا ایہا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعا یعنی اے غلام احمد تو تمام لوگوں کو کہہ دے کہ میں تمہارے لئے رسول اﷲ ہوں۔‘‘
۶… وہ (یعنی مرزاقادیانی) قرآن مجید کی آیتوں کو اپنے پر نازل ہونا تحریر کرتا ہے اور قادیان کو بیت اﷲ سے نسبت دیتا ہے اور عبادت گاہ قادیان کو مسجد اقصیٰ کہتا ہے اور معراج آنحضرتﷺ سے منکر ہے۔
۷… وہ (یعنی مرزاقادیانی) حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور روح القدس کی سخت توہین کر رہا ہے۔