بچھڑے ہوئے دوستو! ہر شخص ہر معاملے میں غلط فیصلہ کر سکتا ہے۔ یہ فیصلہ اخلاص کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اور بددیانتی کے ساتھ بھی۔ ہم مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ مرزاغلام احمد قادیانی اپنے دعاوی، مہدویت، مسیحیت، ماموریت اور نبوت میں کاذب ہیں اور میں آپ حضرات کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ رب ذوالجلال کی قسم، میں مرزاغلام احمد قادیانی کو کاذب یقین کرتا ہوں۔ ان کے تمام دعاوی کو غلط یقین کرتا ہوں اور یہ یقین رکھتا ہوں کہ ان کو نبی ماننا امت محمدیہ سے خارج ہوجانے کے مترادف ہے۔
مرزاغلام احمد قادیانی کے سچے نہ ہونے کے دو اہم دلائل
میرا یہ فیصلہ کن دلائل اور حقائق پر مبنی ہے۔ اس کی تفصیلات کا یہ موقع نہیں البتہ آپ حضرات کے سامنے میں سینکڑوں میں سے صرف دو باتیں پیش کرنا چاہتا ہوں اور آپ حضرات کو متوجہ کرتا ہوں کہ یوم محشر کی جواب دہی اور ابدی نجات کی اہمیت اور ابدی عذاب کے خوف کا تصور کر کے ان باتوں پر غور کریں۔
پانچ اور پچاس کی بات قادیانی حضرات! سب سے پہلے تو میں ایک انتہائی سادہ لیکن اہم اور واضح بات پیش کرتا ہوں۔ آپ میں سے ہر شخص بغیر کسی فلسفے اور منطق کی مدد سے یہ جانتا ہے کہ کوئی اجنبی نہیں۔ اگر کوئی نوجوان اپنے بزرگ باپ کو پانصد روپے دے اور اس کا محترم باپ یہ کہے کہ یہ پانصد روپے میں تمہیں واپس لوٹا دوں گا۔ سعادت مند بیٹا روپے کی واپسی کا مطالبہ کو شدت سے نہ کرے۔ لیکن جب کبھی باہمی حساب کتاب کا مرحلہ پیش آئے تو وہ عرض کرے کہ ابا جان! وہ پانچصد روپے بھی تھے۔ والد بزرگوار ہر موقعہ پر بات کا رخ بدل دیں اور بیٹے کو ٹال دیں۔ آخر ایک دن وہ غصے میں آئیں۔ پہلے تو اپنے بیٹے کو سخت سست کہیں۔ اس کے بعد فرمائیں۔ ابے نالائق یہ لو اپنی رقم جس کا مطالبہ تم کئی سال سے کر رہے ہو اور تم نے مدت سے پریشان کر رکھا ہے اور یہ فرمانے کے بعد وہ مبلغ پانچ روپے اپنے بیٹے کے ہاتھ میں تھما دیں۔
بیٹا عرض کرے۔ حضرت ابا جان! یہ کیا؟ میں نے تو آپ کے حسب ارشاد ۵۰۰روپے دئیے تھے اور آپ صرف پانچ روپے عطا فرمارہے ہیں؟