مولانا عبدالسمیع صاحب کی تقریر
مولانا عبدالسمیع صاحب مدرس دارالعلوم دیوبند نے ’’لقد جاء کم رسول من انفسکم (توبہ:۱۲۸)‘‘ آیت تلاوت فرماکر تقریر شروع کی۔ کہا کہ:
جب اس جلسہ کے منتظمین کی طرف سے مجھے شرکت کی دعوت پہنچی تو ’’الفضل‘‘ کے ایڈیٹر نے بھی یاد کیا تھا کہ ضرور آئیے۔ بحمد اﷲ میں آگیا ہوں۔ اس کے بعد آپ نے آیت مبارکہ کا ترجمہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ آیت شریف اس آسمانی کتاب کا ٹکڑا ہے۔ جو مسلمانوںکی مذہبی کتاب ہی نہیں۔ بلکہ دنیوی دستور العمل بھی ہے۔ اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ حدیث پاک میں وارد ہے کہ نزول قرآن سے پہلے فرشتے کہتے تھے کہ خوشحالی ہو ان سینوں پر جس میں اس کا انضباط ہوگا اور مبارک ہو ان زبانوں پر جو اس کی تلاوت کریں گی۔
صاحبان! آپ جانتے ہیں کہ جب آنحضرتﷺ مبعوث ہوئے تو اس وقت مکہ میں بت پجتے تھے۔ اس وقت آپ نے لا الہ الا اﷲ (یعنی ایک خدا کی پرستش کرو) کی تعلیم دی۔ جس پر کفار مخالف ہوگئے اور انہوں نے آپ کو بے حد اذیتیں پہنچائیں۔ مگر آپ نے جو کچھ کہا۔ کر کے دکھادیا۔ جو بات کی سچی کی، یہ نہیں کہ کہیں عیسیٰ بن گئے۔ کہیں موسیٰ۔ کہیں ابراہیم بن بیٹھے کہیں یوسف۔ کہیں یعقوب علیہم السلام کہیں کرشن۔ کہیں خدا وغیرہ۔ آنحضرتﷺ کیسے تھے؟ نبی کے اخلاق کیسے ہونے چاہئیں؟ اس کا مختصر ذکر کر کے فیصلہ آپ پر چھوڑوں گا۔ آپ ’’بالمؤمنین روف رحیم‘‘، مومنوں کے ساتھ نہایت رحیم تھے ان کی حرص تھی کہ لوگ بھلائی کے راستہ پر آجائیں اور گمراہ کن طریقہ کو چھوڑ دیں۔ جو انہیں جہنم میں لے جانے والا ہے۔ پس جو شخص ہمیں قرآن وحدیث کے خلاف لے جائے سمجھو وہ ہمیں کہاں پھینکے گا۔ یاد رکھو جنت میں لے جانے والا رسول کا طریقہ ہے۔ رسول کی تعلیم کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے کی تعلیم کی ضرورت نہیں۔ نبوت حضرتﷺ پر ختم ہوچکی ہے۔ آپ خاتم النبیین ہیں۔
صحیح بخاری میں اس آیت کی دوسری قرأت یوں ہے کہ: ’’من انفسکم‘‘ (یعنی ف کی زبر کے ساتھ) ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے پاس ایسا رسول آیا۔ جو سب سے ارفع واعلیٰ ہے۔ حضورﷺ فرماتے ہیں۔ خدا نے دنیا سے مکہ والوں کو منتخب فرمایا، اور مکہ والوں سے خاندان ہاشمی کو اور بنی ہاشم سے مجھ کو منتخب کیا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ آپ اشرف وسید اور اخلاق وفضائل کا مخزن ومنبع تھے۔ اب اگر کوئی کہے کہ میں ان جیسا ہوں یا ان سے اعلیٰ ہوں تو ناظرین خود فیصلہ کر لیں۔ میں کچھ نہیں کہتا۔