کی مشینری کو ناکام بنانے کا ہے۔ حکومت کی پولیس کے سامنے اس بات کے ثبوت وشواہد موجود ہیں۔ ربوہ میں تشدد اور جرائم کے ایسے واقعات پولیس کے نوٹس میں آچکے ہیں۔ جن کی صداقت کے متعلق پولیس کے افسران اعلیٰ کو شک وشبہ باقی نہیں رہا۔ لیکن ان افسروں کا بیان ہے کہ اخفائے جرم کی ایک لمبی چوڑی سازش نے ان کے لئے مجرم کو سزا دلوانا یا مظلوم کی دادرسی کرنا ناممکن بنا دیا ہے۔ احیائے مذہب کے علم بردار سچ بات کہنے پر آمادہ نہیں ہوتے اور اگر کوئی شخص آمادہ ہوتا ہے تو اسے زر یا زور کے ذریعے سچی گواہی دینے سے روکتے ہیں۔ لہٰذا ملک کا قانون بے بس ہے۔
اگر اس ملک میں واقعی ایسے حالات پیدا ہو جائیں اور ایک جماعت اپنی تنظیم اور اپنے وسائل کے ذریعے قانون وانصاف کی مشینری کو جب چاہے شل کر دے۔ تو حکومت کو طفلانہ سرکلر جاری کرنے کے بجائے ان حالات سے عہدہ برا ہونے کی مؤثر تدبیر سوچنی چاہئے یا بصورت دیگر اقتدار کے عہدہ سے مستعفی ہو جانا چاہئے۔ اصل یا اہم سوال یہ نہیں ہے کہ نظام ربوہ کے جاسوس حکومت کے راز چرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکومت کے پاس راز ہی کون سے ہیں۔ جنہیں وہ محفوظ رکھ سکتی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ جاسوسی کے علاوہ ربوہ کے خلافتی نظام کے کارکن اور بھی بہت کچھ کر رہے ہیں۔ جو ایک دہشت پسند خفیہ سیاسی نظام کی سرگرمیوں کی ذیل میں آتا ہے۔ اس کا علاج کیا ہے۔‘‘ (روزنامہ آفاق لاہور مورخہ ۲۷؍دسمبر ۱۹۵۷ئ)
روزنامہ ’’تسنیم‘‘ بھی ملاحظہ ہو:
ربوہ کا جاسوسی نظام
’’اخباروں میں حکومت مغربی پاکستان کے ایک گشتی مراسلے کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ جس میں محکموں کے سربراہوں اور سیکرٹریوں کو ربوہ کے جاسوسوں سے خبردار رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ حکومت کے علم میں یہ بات آئی ہے کہ ربوہ کے قادیانی خلافتی نظام نے جاسوسی کا ایک محکمہ قائم کر رکھا ہے۔ جو حکومت کے دفاتر سے قادیانی جماعت کے بارے میں حکومت کے فیصلوں کی اطلاعات ناجائز طور پر حاصل کرتا ہے۔ حکومت نے اعلیٰ حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ ان جاسوسوں سے خبردار رہیں۔ حکومت نے یہ بھی بتایا ہے کہ یہ اطلاعات قادیانی جاسوس قادیانی سرکاری ملازموں سے حاصل کرتے ہیں یا قادیانی پنشن خواروں سے جن کے تعلقات اب بھی سرکاری دفاتر سے ہیں۔
ایک معاصر نے اس پر یہ سوال اٹھایا ہے کہ حکومت کے نزدیک کون سی شے اہم ہے؟ سرکاری راز معلوم کرنے کا جاسوسی نظام؟ یا وہ خفیہ متوازی حکومت جو قادیانی نظام خلافت نے