باﷲ) پھر افسوس نادان عیسائی ایسے شخص کو خدا بتارہے ہیں۔ اس کے بعد (ضمیمہ انجام آتھم ص۷، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱) سے دکھایا کہ مرزاقادیانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خاندان کی نسبت درافشانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کی ۳دادیاں اور نانیاں زناکار اور کسبی عورتیں تھیں۔ وغیرہ وغیرہ! (نعوذ باﷲ)
حضرت حسین علیہ السلام کی نسبت لکھتے ہیں کہ ’’شتان ما بینی وبین حسینکم‘‘ کہ حسین علیہ السلام اور ان کے کنبہ کو پانی تک نہ ملا اور ہم کو یہ خوش حالی نصیب ہے۔
اور سنو! لکھتے ہیں کہ آپ (عیسیٰ علیہ السلام) کا کنجریوں سے بہت میلان تھا۔ (نعوذ باﷲ) ہم کہتے ہیں کہ معاذ اﷲ اگر ان باتوں کو مان بھی لیا جاوے تو آپ ان کے بروز کیسے بن گئے؟ اور جب ہم ان گندی تحریروں پر نفرین کرتے ہیں تو پھر کہا جاتا ہے کہ یہ تو پادریوں کو جواب دینے کے لئے ہے۔ کیا پادریوں کو حوالہ دینے کے لئے ایک پیغمبر کی دادی اور نانی پر ایسا لکھنا ہی ضروری ہوتا ہے۔ افسوس!
اس کے بعد بہت سے حوالے دے کر مرزاقادیانی کو غلط انداز ثابت کیا۔ اس وقت حکیم غلام محمد نے اپنے تائب ہونے کا اعلان کیا۔ جو عرصہ دراز تک مرزائی رہا اور مرزائیوں سے رشتہ ناطہ بھی کیا۔ الحمد اﷲ علیٰ ذالک!
مولوی نواب الدینؒ کی تقریر
مولانا سید مرتضیٰ حسنؒ کی تقریر کے بعد مولوی نواب الدین نے مرزاقادیانی کے الہامات پر تنقید کی اور ان کی کتابوں کے حوالہ جات سے ان کا متناقض ومتخالف ہونا ثابت کیا۔
ان کے بعد منشی حبیب اﷲ امرتسریؒ نے نسبت اختلاف عمر مرزا لکھا ہوا اپنا مضمون پڑھا۔ جو مدلل وپرمعلومات ہونے کی وجہ سے بڑی دلچسپی سے سنا گیا۔
مولانا ابوالوفا ثناء اﷲ مولوی فاضل امرتسریؒ
نے حمد وصلوٰۃ کے بعد تقریر شروع کی کہ حضرات مرزاقادیانی کے ساتھ میرا تعلق ۴۰،۴۵سال سے ہے۔ میں ان کی پہلی حالت سے آخیر تک ان کی تحریرات کا مطالعہ کرتا رہا ہوں۔ کل میں نے کہا تھا کہ جناب شاہ صاحب کے ملفوظات پر مرزاقادیانی کے دستخط کروں گا۔ جناب شاہ صاحب نے آیت ’’ء انت قلت للناس اتخذونی وامّی الہین من دون اﷲ‘‘ پیش کی تھی۔ جس کا لب لباب یہ ہے کہ خداوند کریم قیامت کو فرمائے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ