اور نیز اس بات کو کہ ان کے جانشین جو آج کل نجات کے واحد اجارا دار بنے ہوئے ہیں۔ مرزاقادیانی کے مقصد اور عقائد میں بھی خیانت سے ردوبدل کر رہے ہیں۔ تاکہ ضرورت وقتی کے لحاظ سے جلب اور حصول کا بازار گرم رہے اور ’’یحرفون الکلم عن مواضع‘‘ کے مصداق بن رہے ہیں۔
ہم اپنی طرف سے یہ بھی نہیں لکھیں گے کہ مرزاقادیانی کے دعاوی اصول وتعلیم اسلام کی رو سے کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ بلکہ یہ مطلب کہ جو شخص کسی کا جانشین ہو اس کی ایمانداری اس میں ہوتی ہے کہ جس کا وہ جانشین ہے اس کے مقصد کی پیروی کرے۔ خواہ وہ کفر تھا یا کذب مگر معلوم ہوا ہے کہ مرزاقادیانی کا مقصد ہی خداترسی اور خدمت دین نہ تھا۔ ورنہ خدا اس مقصد کو ضائع نہ ہونے دیتا۔ اگرچہ مرزاقادیانی کے اخراجات خانگی کتنے ہی کیوں نہ بڑھ جاتے۔ بالآخر میں خدا کو حاضر وناظر جان کر اپنے ۱۵،۱۶سالہ تجربہ کی بناء پر لکھ سکتا ہوں کہ خلیفہ قادیان کا مقصد صرف روپیہ اکٹھا کرنا ہے۔ روحانیت اور مذہب ان میں صرف دکھاوا ہی دکھاوا ہے۔
جیسا کہ میں، مرزاقادیانی اور خلیفہ قادیان کی کثیر التعداد اختلاف بیانیوں سے کسی قدر اس کا ثبوت پیش کر چکا ہوں۔ مگر یہ اختلاف اگرچہ عبارت میں مخل تھے۔ لیکن باالخصوص عقائد میں صاف اختلاف تھے اور اب ہم چاہتے ہیں کہ آئندہ فصل میں کچھ ایسے بیان کریں جو اگرچہ عقائد میں بھی ہوں۔ لیکن عبارات میں بالخصوص اختلاف ثابت ہوں اور اس مضمون کو بھی ہم بالاستیعاب نہیں لکھ سکتے۔ صرف عاقل را اشارہ کافی است والی بات ہے۔
والسلام!
الفصل الثالث
دربارہ اختلافات صریحہ
’’وما ینطق عن الہویٰ ان ھوالا وحی یوحیٰ‘‘ {نبی اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتا سوائے وحی کے۔}
’’لوکان من عند غیر اﷲ لوجدوا فیہ اختلافاً کثیراً‘‘ {جو چیز اﷲ کی طرف سے نہیں ہوتی۔ اس میں اختلاف بڑے ہوتے ہیں۔ (مرزاقادیانی کے اختلافات کثیراً)}
تناقض
حدیث میں آنے والے مہدی کو حارث، حراث لکھا ہے اور اس حدیث کو مرزاقادیانی