پمفلٹوں اخبارات وجرائد اور تقریروں وتحریروں میں ہر لمحہ کرتے ہیں اور ہمیں اتنی بھی اجازت نہ ہو کہ ہم حضورﷺ کی ختم نبوت کی وضاحت کر سکیں۔
ہم نے قادیانی ہفت روزے کے اس سوقیانہ شذرے کو اپنے اور دوسرے صحیح العقیدہ مسلمانوں کی جانب روئے سخن اس لئے قرار دے لیا ہے کہ نفس مسئلہ سب کے درمیان مشترک ہے اور اس اخبار نے جس ایک گروہ کو مخصوص نشانہ بنایا تھا۔ ہم اس حملے کو صرف اسی تک محدود نہیں سمجھ رہے۔ اس لئے کہ اصل مسئلہ یہ نہیں بلکہ صورتحال کی صحیح نوعیت یہی ہے کہ سارا بگاڑ مرزاغلام احمد قادیانی کے بلند بانگ دعاوی سے پیدا ہوا اور جب تک ان کے دعاوی کی تبلیغ تشہیر اور اعلان ہورہا ہے۔ اس کا ردعمل فطری ہے اور جو لوگ اس مسئلے کو حل کرنے کے متمنی ہیں۔ ان کے لئے اس کے سوا چارہ نہیں کہ وہ اس صورتحال کو جیسی کہ وہ ہے سمجھیں۔ اشتعال انگیزی کسی بھی جانب سے نہیں ہونی چاہئے۔ اس سے مسائل بگڑتے اور الجھتے ہیں، سلجھتے نہیں۔ حقائق کو تسلیم کرنا سب سے بڑی معقولیت ہے اور معقولیت سے ہی الجھنیں دو رکی جاسکتی ہیں۔ قادیانیوں سے کچھ کہنے کا حق تو ہمیں حاصل نہیں اور اس سے حاصل بھی کچھ نہ ہوگا۔ البتہ مسلمانوں سے ہم یہ ضرور عرض کریں گے کہ وہ اظہار خیال میں سنجیدگی، متانت، اور ثقاہت کو ملحوظ رکھیں اور ہر قسم کی اشتعال انگیزی سے کنارہ کش رہیں اور یہ اس لئے ایک تو ملک میں لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا نہ ہو اور اس سے بھی اہم وجہ یہ ہے کہ وہ جس نبی (فداہ روحی ونفسی، ابی وامیﷺ) کی امت ہیں۔ اس سے نسبت کا تقاضا ہے کہ ان کے قول وعمل سے حضورﷺ کے اسوۂ حسنہ کا مظاہرہ ہو سکے۔
مسلمانوں کا ایک اہم ترین فرض
اس کے علاوہ ہم سب مسلمانوں پر خداتعالیٰ، رسولﷺ اور اسلام کی جانب سے یہ فرض بھی عائد ہوتا ہے کہ ہمارے جو بھائی ایک جھوٹی نبوت کو تسلیم کر کے ہم سے کٹ چکے ہیں۔ انہیں ازسرنو اسلام کی جانب دعوت دیں اور اپنے اخلاق سے ان پر حضور رحمت عالمﷺ کی رحمت وشفقت کی اہمیت کو واضح کریں۔ ہمیں ہر حالت میں اس پہلو کو ملحوظ رکھنا ہوگا اور ان تمام زیادتیوں پر صبر کرنا ہوگا۔ جو وقتاً فوقتاً قادیانی اخبار نویسوں کی جانب سے سرزد ہوتی رہتی ہیں۔
خدائے بزرگ وبرتر سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے سب سے بزرگ اور آخری نبیﷺ کے اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطاء فرمائے اور ہمارے ان بچھڑے ہوئے بھائیوں کو حق کو سمجھنے اور اسے قبول کرنے کی استعداد سے نوازے۔ اللہم آمین!