مرزاغلام احمد قادیانی اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑویؒ
ڈیئر ایڈیٹر صاحب چودھویں صدی سلمہ، السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ، آپ کے اخبار مورخہ ۱۵؍اکتوبر میں کسی مبصر واجب التعظیم بزرگ کی مراسلت مندرجہ عنوان درج ہوئی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے مذہبی مباحثات کے درج اخبار کرنے کے احتراز کو کچھ عرصہ کے لئے توڑ ڈالا ہے۔ اس لئے امید ہے کہ اس مراسلت کا مفصلہ ذیل معقول جواب درج اخبار کر کے نیازمند کو مشکور فرمائیں گے۔ اگرچہ مضمون کی ابتداء میں مبصر صاحب نے یہ ظاہر کیا ہے کہ ہم کسی کے طرفدار نہیں ہیں۔ اپنی رائے راست راست پیش کرتے ہیں۔ لیکن بہتانوں اور بیجا الزاموں کی بھرمار غصہ اور اشتعال سے بھرے ہوئے الفاظ کی بوچھاڑ جوان کے مضمون میں پائی جاتی ہے۔ ان کے ابتدائی بیان کی تکذیب اور اس مخالفانہ جوش اور بخارات عناد کی تصدیق کے لئے کافی ہے۔ جن کا انبار مرزاقادیانی کے برخلاف ان کے دلوں میں پوشیدہ ہے۔ ان کا اس بات پر فخر کرنا کہ مرزاقادیانی پر علماء نے فتوے لگادئیے ہیں۔ کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ چنانچہ رسائل ’’مدار الحق‘‘ اور ’’جامع الشواہد‘‘ اور مختلف دیگر کتب کے پڑھنے والوں سے یہ مخفی نہیں ہے کہ اہل حدیث اور مقلدوں میں سے ہر ایک نے ایک دوسرے کے الحاد، زندقہ، کفریات اور لامذہبی ثابت کرنے کے لئے علماء حرمین الشریفین وغیرہ تک کی مہریں کس کس شدومد سے ثبت کرا کے ایک دوسرے کو قطعی جہنمی اور کافر بنا کر باہمی مخالطت اور مجالست کرنے اور مساجد میں آنے دینے سے ممانعت پر زور دیا ہے۔ اگر کسی کے کفر اور الحاد کا مدار ان مواہیر اور ان علماء کی رائے پر ہی موقوف ہے تو یہ فرقے تو پہلے ہی کافر ہوچکے ہیں۔ ان کا کسی کے کفر پر مہر کرنا کیا حیثیت اور حقیقت رکھتا ہے۔ اب رہا پیر صاحبؒ کا معاملہ سو اس معاملہ میں خلاف واقعہ باتوں کو لکھ کر مضمون نگار صاحب نے ایمانداری اور دیانت داری کا خون کیا ہے۔ پیر صاحب کو یہ لکھا گیا تھا ۔ آپ کی تحریرات سے جو تفرقہ پیدا ہوا ہے اس کے دور کرنے کے لئے ہم دونوں جلسہ عام میں کسی قرآن سورۃ کی تفسیر لکھیں اور پھر تین کس مولوی صاحبان یعنی مولوی محمد حسین اور دو اور قسم کھا کر ان دونوں میں سے ایک کو ترجیح دے دیں۔ پس اگر پیر صاحب کی تفسیر کو ترجیح دی گئی تو ان کا غلبہ اور اپنا کاذب ہونا مان کر توبہ کر لی جاوے گی اور اس طرح سے وہ شور جو پیر صاحب کی تحریرات سے پیدا ہوا ہے۔ دور ہو جاوے گا۔ اب ناظرین سوچ سکتے ہیں کہ اس طرح سے کس آسانی سے فیصلہ ہو سکتا تھا اور پیر صاحب کے لئے کس قدر مفید تھا۔ کیونکہ قسم کھانے والا جس کے فیصلہ پر حصر رکھا گیا تھا۔ وہ مولوی محمد حسین صاحب اور ان کے رفیق ہی تھے۔ لیکن چونکہ پیر صاحب کے دل میں چور تھا اور ان کی