بڑبڑاتا جائے کہ جب خدا نے پانچ نمازوں پر پچاس کے ثواب کا وعدہ کیا ہے تو کیا وجہ ہے کہ میرے پانچ روپے پچاس شمار نہیں کئے جاسکتے؟ مجھے یقین ہے کہ ان قادیانی کو اس رقعہ کی صحیح تعبیر سمجھ میں آجائے گی۔
لیکن تفنن برطرف پانچ لے کر پچاس ادا کرناتو دینے والے کی سخاوت اور اس کی عظمت وبرتری کا ثبوت ہے۔ مگر پچاس وصول کر کے جو شخص پانچ پرٹرخادے کیا اس کے بارے میں بھی یہی رائے قائم کی جائے گی؟ یا یہ کہ وہ دھوکے سے کام لے رہا ہے اور امانت ودیانت سے محروم ہے؟
علاوہ بریں یہ واضح رہے کہ حدیث نبوی کا مدعا یہ ہے کہ ۵نمازوں کا اجر ۵۰نمازوں کے اجر کے برابر ہوگا۔ مسئلہ زیربحث اجر کا ہے۔ ریاضی کا نہیں؟
منصب نبوت کی سطح؟
مرزاغلام احمد قادیانی… دینی اور مصلح ماننے والے حضرات کی خدمت میں مجھے دوسری بات یہ پیش کرنا ہے کہ وہ عند اﷲ مسئولیت کے تصور کو مستحضر کر کے سوچیں کہ مرزاغلام احمد قادیانی نبوت ایسے آخری منصب کو کس پست سطح پر لے آئے؟ یہ بات تو آپ سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ متقی اور پرہیزگار انسان عام مسلمانوں سے سیرت وکردار اور اخلاق ومعاملات میں بلند ہوتے اور جنہیں اﷲتعالیٰ اپنے قرب، اپنی محبت اور اپنی ولایت سے سرفراز فرماتا ہے وہ سب سے زیادہ سربلند ہوتے ہیں اور اس معیار سے ان کی زندگیاں، پاکیزگیاں، تزکیہ نفس اور اعلیٰ اخلاق کا بہت اونچا نمونہ ہوتی ہیں۔
حضرات! جب تقویٰ، پرہیز گاری، محبت الٰہیہ اور ولایت کا یہ مقام ہے کہ جسے ان نعمتوں سے نوازا جائے وہ رذیل اخلاق سے پاک ہوتا ہے اور اعلیٰ اخلاق قدروں کا قابل اتباع نمونہ ہوتا ہے۔ تو نبوت جو اﷲتعالیٰ کا سب سے بڑا عطیہ ہے۔ وہ جن اشخاص کو اس سے سرفراز فرماتا ہے۔ ان کی بلندی اور تقویٰ کا تصور کون کر سکتا ہے۔ لیکن آئیے دیکھیں مرزاغلام احمد قادیانی کا تصور نبوت کیا ہے اور وہ اس آخری منصب الٰہیہ کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟
یہ میرے ہاتھ میں مرزاغلام احمد قادیانی کی تصنیف دافع البلاء ہے۔ اس کتابچہ پر تنبیہ کے عنوان سے ایک ابتدائیہ ہے۔ اس کے حاشیہ پر مرزاغلام احمد قادیانی لکھتے ہیں: ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے زمانہ کے بہت لوگوں کی نسبت اچھے تھے۔ یہ ہمارا بیان محض نیک ظنی کے طور پر