صاحب مجلس ابرار نے لکھا ہے کہ امت کے لئے تجدید دین سے مراد یہ ہے کہ عمل بالکتاب والسنۃ میں سے جو باتیں مٹ چکی ہوں۔ ان کو ازسرنو زندہ کیا جائے اور ان کے اقتضاء کے مطابق حکم کیا جاوے اور انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ کسی شخص کو یقینی طور پر مجدد نہیں کہا جاسکتا۔ ہاں اس کی طرف گمان کیا جاسکتا ہے۔ علمائے امت میں جو لوگ اس کے ہم عصر ہوتے ہیں۔ وہ ان کے احوال کے قرائن اور اس کے علم سے استفادہ کرنے کی بدولت یہ قیاس کرتے ہیں کہ شاید وہ مجدد ہے۔ جو شخص مجدد ہو اس کے لئے یہ لازمی اور ضروری ہے کہ وہ دین کے علوم ظاہری وباطنی دونوں میں وحید العصر اور فرید الدہر ہو۔ سنت کا حامی ہو۔ بدعت کا قلع قمع کرنے والا ہو اور دنیا کے لوگ اس کے علم سے بیش از بیش بہرہ اندوز ہوں۔ نیز ملا علی قاری نے شرح مشکوٰۃ شریف مرقات میں لکھا ہے کہ مجدد وہ ہوتا ہے جو سنت اور بدعت میں امتیاز کر کے دکھائے اور علوم کے دریا بہائے اور علماء کی عزت کرے۔ بدعات کا قلع قمع کر دے اور اہل بدعت کو ذلیل ورسوا کر دے۔
عون العبود شرح ابوداؤد
(باب مایذکر فی قران الماء ۃ ج۴ ص۱۸)
گذشتہ تیرہ صدی کے مجددین
فہرست مجددین گذشتہ تیرہ صدی مذکورہ برصفحہ۱۸۱ شرح ابوداؤد۔ پہلی صدی: حضرت عمر ابن عبدالعزیزؒ، دوسری صدی: امام شافعیؒ۔ تیسری صدی: ابن سریجؒ۔ چوتھی صدی: امام باقلانیؒ یا امام السفرائنی یا حضرت سہلؒ۔ پانچویں صدی: امام حجۃ الاسلام محمد المدعو الغزالیؒ۔ چھٹی صدی: امام رازیؒ۔ ساتویں صدی: ابن دقیق العبدؒ۔ آٹھویں صدی: امام بلقینیؒ یا حافظ زین الدینؒ۔ نویں صدی: امام جلال الدین السیوطیؒ۔ دسویں صدی: امام شمس الدین ابن شہاب الدینؒ۔ گیارھویں صدی: حضرت مجدد الف ثانیؒ یا امام ابراہیمؒ بن حسن کردی۔ بارھویں صدی: حضرت شاہ ولی اﷲؒ یا شیخ صالح بن محمد بن نوح الفلانی یا السید المرتضیٰ الحسینی۔ تیرھویں صدی: مولانا محمد قاسم صاحب دیوبندی یا سید نذیر حسین محدث دہلوی یا قاضی حسین بن محسن انصاری۔
مجدد کے صفات اور مرزاغلام احمد قادیانی
جس طرح مجدد کی شخصیت عام لوگوں سے برتر ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کے اوصاف بھی نہایت بلند ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے مجدد وہی ہوسکتا ہے جو صدرا اور بازعہ کے علاوہ مکتب محمدیہ میں بھی برسوں زانوئے ادب تہہ کر چکا ہو۔