عدالت، کمیشن، مباہلہ
خلیفہ صاحب! اس وقت زندہ ہیں۔ ان کی موجودگی میں یہ فیصلہ ہونا نہایت ضروری ہے تاکہ خدا کے زندہ نشان آپ بھی اور وہ بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔ اس وقت بھی خلیفہ صاحب کے کردار کا محاسبہ نہ کیاگیا اور اس طرح غفلت برتی گئی تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوںگے۔ مقدس پاکباز نہیں بلکہ اس زمانہ کا مذہبی ڈاکو تھا۔ جو ’’شکل مومناں اور کرتوت کافراں‘‘ کا صحیح مصداق تھا۔ چوہدری غلام رسول نے اس کتابچہ میں خلیفہ صاحب کا نقشہ یوں بیان کیا ہے کہ: ’’اگر خلیفہ صاحب کی ایک منٹ کی محفل کو چودہ سو صدی پر پھیلایا جائے تو تمام نور کافور ہو جائے گا۔‘‘ ان دو لفظوں میں چوہدری صاحب موصوف نے خلیفہ صاحب کے کردار کا محاسبہ کر دیا ہے۔ خلیفہ صاحب پر جب کسی نے زنا کا الزام لگایا تو آپ بڑی جسارت اور فخر کے ساتھ مقدس اصطلاحوں سے اپنے آپ کو بریکٹ کر جاتے ہیں۔ کبھی سرور کائنات سردار دوجہاںﷺ سے اپنے آپ کو تشبیہ دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا انجام یقینا ایسا ہوگا جو ان کے اور ان کی اولادوں کے لئے شرمناک صورت اختیار کر جائے گا اور اس دنیا میں اس خلیفہ کا انجام بھی دیکھ لیں گے۔ اس کو ایسی عبرتناک سزا ملے گی جس سے اس کی زبان کھچ (گونگ) جائے گی، اور اس کا دماغ ماؤف ہو جائے گا اور فالج کا شکل ہوکر ڈاکٹر ڈوئی کی موت مرے گا۔ اس دنیا میں اور آخرت میں لعنتی کے لفظوں سے یاد کیا جاوے گا۔
لیکن یاد رکھیں۔ حالات کیسے بھی ہوں۔ مشکلات پوری طاقت کے ساتھ آئیں۔ تافیصلہ ہم اس معاملہ کو پر امن طریق سے حل کروانے کی پوری پوری کوشش کریں گے۔ چوہدری صاحب موصوف کی عدیم الفرصتی کی وجہ سے میرے جیسے کمزور اور امی انسان کو اس کے پروفوں کی تصحیح اور طباعت وغیرہ ودیگر اہم ضرورت کی خدمت وغیرہ میرے حصہ میں آئی اور میں نے خدمت گزاری کے طور پر اس کام کو سرانجام دیا۔ اگر اس میں کسی وجہ سے لفظی لغزشیں نظر آئیں تو اس کا میں آپ سے معذرت خواہ ہوں۔
سب طاقت اور توفیق اس قادر مقتدر خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اس ایک ہی سہارے کا امیدوار ہوں۔ میری دلی دعا ہے کہ اس کتابچہ کو جس مقصد کے لئے پیش کیاگیا ہے۔ اس کے مفید نتائج برآمد ہو کر ظلم وستم کا دروازہ بند ہو۔
گر قبول افتدز ہے عزو شرف
نیازمند مظہر ملتانی