اجلاس دوم (۱۹؍مارچ۱۹۲۱ئ) بعد نماز عصر
تقریر مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی ؒ
پہلے مولوی قاری محمد طیب دیوبندیؒ نے خوش الحانی سے ایک رکوع تلاوت فرمایا۔ اس کے بعد مولانا نے حمد وصلوٰۃ کے ساتھ اپنی تقریر ان آیات سے شروع کی۔ ’’فبما نقضہم میثاقہم وکفرہم باٰیٰت اﷲ وقتلہم الانبیاء بغیر حق وقولہم قلوبنا غلف بل طبع اﷲ علیہا بکفرہم فلا یؤمنون الا قلیلاء وبکفرہم وقولہم علی مریم بہاتانا عظیما، وقولہم علی مریم بہتانا عظیما، وقولہم انا قتلنا المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اﷲ وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لہم وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ ما لہم بہ من علم الااتباع الظن وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اﷲ الیہ وکان اﷲ عزیزاً حکیما، وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ویوم القیامۃ یکون علیہم شہیدا (نسائ:۱۵۵تا۱۵۹)‘‘ کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے شرکت جلسہ کی توفیق بخشی۔ سابقہ جلسہ میں اس لئے حاضر نہ ہوسکا کہ بمبئی میں تھا۔ اس دفعہ بھی بنگال جانے والا تھا کہ اطلاع پہنچی، حاضر ہوگیا ہوں۔ درحقیقت جو خدا چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔
صاحبان! حیات مسیح علیہ السلام قبل نزول کا مضمون میرے متعلق کیاگیا ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جو بات قرآن وحدیث سے ثابت ہو جائے وہ ماننی چاہئے۔ میرا مضمون دو جزوں پر مشتمل ہے۔ مسئلہ صلب اور مسئلہ رفع سماوی۔ یعنی آیا عیسیٰ صلیب پر چڑھائے گئے یا نہ، اور آیا آپ کی ہجرت کشمیر میں کرائی گئی یا آسمان پر۔ قلت وقت کے باعث آج صرف صلیب پر تقریر کروں گا اور رفع کی بابت کل پھر کروں گا۔ صلیب کا واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو پکڑوایا اور سولی پر چڑھا دیا اور آپ کے بدن پر میخیں لگائیں۔ یہودی ایسا کہتے ہیں اور مسیح علیہ السلام کا مرجانا تسلیم کرتے ہیں۔ مگر مرزاقادیانی کا قول ہے کہ مسیح صلیب پر مرا نہیں بلکہ اس کے بعد کشمیر محلہ خانیار میں جا کر مرے اور میں ثابت کروں گا کہ نہ وہ قتل ہوئے نہ وہ سولی پر چڑھے نہ ہجرت کر کے کشمیر کو گئے۔ بلکہ یہودیوں کی دستبرد سے پہلے ہی آپ صحیح وسلامت آسمان پر اٹھا لئے گئے۔ میں اپنے دلائل قرآن سے دوں گا اور مخالف کا دارومدار اناجیل پر ہے۔