پاش ہوتے دیکھا تو پھر شاطر سیاست نے ایک سیاسی پینترا بدلا وہ یہ کہ مسلمانوں میں تشتت وافتراق واختلاف وانتشار کی آگ بھڑکانے کے لئے سیاسی ہتھ کنڈے استعمال کئے۔ پس میں حکومت کو اس بات سے آگاہ کر دینا فرض اولین سمجھتا ہوں کہ وہ ’’خلیفہ صاحب ربوہ‘‘ کے سیاسی عزائم کا محاسبہ کرے اور اس کے نظام کو سمجھنے کی پوری پوری کوشش کرے۔ خلیفہ صاحب نے اپنی جماعت کو دنیا کا چارج سنبھالنے اور حکومت پر قبضہ کرنے اور اپنے ذاتی اغراض پورے کرنے کے لئے جماعت کی باقاعدہ تربیت کی اور اس کو شعوری اور غیرشعوری طور پر ابھارتے رہے۔ چنانچہ خلیفہ صاحب فرماتے ہیں۔
’’اس وقت اسلام کی ترقی خداتعالیٰ نے میرے ساتھ وابستہ کر دی ہے۔ یاد رکھو کہ سیاسیات اور اقتصادیات اور تمدنی امور حکومت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پس جب تک ہم اپنے نظام کو مضبوط نہ کریں اور تبلیغ اور تعلیم کے ذریعہ سے حکومتوں پر قبضہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ ہم اسلام کی ساری تعلیموں کو جاری نہیں کر سکتے۔‘‘ (مورخہ ۵؍جنوری ۱۹۳۷ء الفضل)
’’یہ مت خیال کرو کہ ہمارے لئے حکومتوں اور ملکوں کا فتح کرنا بند کر دیا گیا ہے۔ بلکہ ہمارے لئے بھی حکومتوں اور ملکوں کا فتح کرنا ایسا ہی ضروری ہے۔‘‘ (مورخہ ۸؍جنوری ۱۹۳۷ء الفضل)
خلیفہ فیلڈ مارشل کے روپ میں
اسی طرح خلیفہ صاحب ربوہ کے ہاں جو بھی تنظیم مختلف ناموں سے معرض وجود میں آئی۔ خلیفہ صاحب خود ہی اس کے سپہ سالار ہوتے ہیں، اور آپ ہی کے زیرہدایت وہ تنظیم پنپتی ہے۔ خود خلیفہ صاحب فرماتے ہیں۔
’’مجلس شوری ہو یا صدر انجمن احمدیہ، انتظامیہ ہو یا عدلیہ، فوج ہو یا غیرفوج، خلیفہ کا مقام بہرحال سرداری کا ہے۔‘‘ (یکم؍ستمبر ۱۹۳۲ء الفضل)
’’انتظامی لحاظ سے وہ صدر انجمن کے لئے بھی رہنما ہے اور آئین سازی وبحث کی تعیین کے لحاظ سے وہ مجلس شوری کے نمائندوں کے لئے بھی صدر اور رہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔ جماعت کی فوج کے اگر دو حصے تسلیم کر لئے تو وہ اس کا بھی سردار ہے اوراس کا بھی کمانڈر ہے اور دونوں کے نقائص کا وہ ذمہ دار ہے اور دونوں کی اصلاح اس کے ذمہ واجب ہے۔‘‘
(مورخہ ۲۷؍اپریل ۱۹۳۸ء الفضل)