ثانیاً… آپ کے اپنے جذبات بھی یہی ہیں کہ آپ اپنے مقدسین کے خلاف کسی ایسی بات کو گوارا نہیں کرتے جو آپ کے نزدیک ان کی توہین کا باعث ہو۔ چنانچہ آپ نے ماضی قریب میں ایک ایسی کتاب ’’تاریخ محمودیت کے چند پوشیدہ اوراق‘‘ کو اسی مغربی پاکستان کی حکومت سے ضبط کروایا ہے۔ جس میں خود قادیانیوں کے بہت سے افراد نے مؤکد بعذاب حلف اٹھا کر آپ کے خلیفہ کے بارے میں بعض ناقابل ذکر باتیں کہی تھیں۔ اگر آپ اپنے خلیفہ کی شان کے خلاف کسی کتاب کو برداشت نہیں کر سکتے اور اسے ضبط کروائے بغیر آپ چین کی زندگی بسر نہیں کر سکتے تو مسلمانوں کے بارے میں آپ کیوں یہ رائے قائم رکھے ہوئے ہیں کہ وہ اپنی جانوں اور اولادوں سے ارب ہا گنا (بلکہ ان گنت گنا زیادہ) محبوب ومحترم ذات بابرکات کے خلاف کسی ناپاک جسارت کو برداشت کر سکتے ہیں۔
ہماری مخلصانہ گذارش قادیانی اصحاب سے یہ ہے کہ وہ پاکستان میں رہتے ہوئے کم ازکم اتنا تو کریں کہ مسلمانوں کی غیرت کو چیلنج نہ دیں اور ایسے حالات از خود پیدا نہ کریں کہ ان کے خلاف نفرت انگیزی عام ہو۔ ہم دیانتہً قادیانیوں کی جان ومان کی حفاظت کو ضروری سمجھتے ہیں۔ (اس لئے کہ ہم بحیثیت قوم ان سے اس حفاظت کا عہد کر چکے ہیں) اور کسی بھی ایسی تحریک یا کوشش کو جائز نہیں خیال کرتے جو قانون شکنی پر منتج ہو۔ لیکن اس میں ہماری (بحیثیت اکثریت کے) ذمہ داری کے ساتھ ساتھ قادیانیوں پر بھی کچھ پابندیاں اور ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور انہیں ان سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ وما علینا الا البلاغ!
اسلامیان پاکستان سے
نامناسب نہ ہوگا اگر ہم سید الرسل، رحمت ہر دو عالم، خاتم النبیین، محمد مصطفیﷺ کی امت کے عام افراد اور اس امت کے علماء کرام سے بھی یہ گذارش کریں کہ اس ضمن میں ان کے بھی کچھ فرائض ہیں اور ان سے عہدہ برآ ہوئے بغیر نہ وہ اس دنیا میں ہمکنار کامیابی ہوسکتے ہیں اور نہ وہ آخرت میں اور محشر کے حضور سرخرو ہوسکیں گے۔
بالخصوص ہم علماء کرام کو ان کے اس منصب کی جانب توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ جس ذات بابرکات کے طفیل ہم آپ اس دنیا میں اس لائق تصور کئے جاتے ہیں کہ تمام ترکوتاہیوں کے باوجود کوئی ہمارا نام لے اور ہم کسی نہ کسی درجے میں لائق التفات متصور ہوں۔ اس خاتم الرسل فداہ آبائنا وامہاتناﷺ نے اپنی رحلت سے کچھ عرصہ قبل ہی یہ فرمایا تھا کہ میرے دین کی تبلیغ ودعوت جو موجود نہیں ہیں۔ ان تک اس دین کو پہنچانا یہ اس امت کا فریضہ ہے۔