کس قدر وثوق کے ساتھ لگائے بیٹھے ہیں۔ ان کے عزائم اور راہیں حصول حکومت دوسرے مسلمانوں سے کس قدر مختلف ہیں۔ یہ اعلان واضح طور سے کیا جارہا ہے کہ مسلمانوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے حکومت ان کو نہیں بلکہ صرف اور صرف احمدیوں کو ملے گی۔
’’اور مسلمان جنہوں نے احمدیت سے تعلق نہیں جوڑا وہ گرتے ہی جائیں گے اور گرتے گرتے یہودیوں کی طرح ہو جائیں گے۔ یہودی موسیٰ علیہ السلام کے نائب کا انکار کرنے کی وجہ سے ذلیل ہوئے تھے… اور محمد رسول اﷲ(ﷺ) کی شان سے بہت بلند ہے۔ اس لئے آپ کے نائب کا انکار کرنے والوں کی ذلت یہودیوں سے بڑھ کر ہوگی۔‘‘
(مورخہ ۱۲؍نومبر ۱۹۱۴ء الفضل) ظاہر ہے کہ مسلمانوں سے پہلے ان کے پروگرام کے مطابق حکومت ان کو میسر نہیں آسکی اور انگریزی حکومت کی عمارت پیوست خاک ہو چکی ہے۔ جس کے نیچے خلیفہ صاحب کی آرزوؤں اور تمناؤں کا خزانہ مدفون ہوچکا ہے۔ اب پاکستان معرض وجود میں آچکا ہے۔ اس کا قیام واستحکام اور اس کی سالمیت وحفاظت انہیں کس طرح گوارہ ہوسکتی ہے۔ خصوصاً جب کہ حکومت ان مسلمانوں کو مل گئی ہے۔ جن کو خلیفہ صاحب یہودی قرار دے چکے ہیں۔ (نعوذ باﷲ) اور جن کے متعلق خلیفہ صاحب یوں فرماتے ہیں۔
’’اسلام کی ترقی احمدی سلسلہ سے وابستہ ہے اور چونکہ یہ سلسلہ مسلمان کہلانے والی حکومتوں میں نہیں پھیل سکتا۔ اس لئے خدا نے چاہا ہے کہ ان کی جگہ اور حکومتوں کو لے آئے۔ تاکہ اس سلسلہ حقہ کے پھیلنے کے لئے دروازے کھولے جائیں۔‘‘ (مورخہ ۱۲؍نومبر ۱۹۱۴ء الفضل)
خلیفہ صاحب اور اکھنڈ ہندوستان
خلیفہ صاحب تقسیم ہند پر گریہ وزاری کرتے ہوئے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار یوں فرماتے ہیں: ’’ہندوستان کی تقسیم پر اگر ہم رضامند ہوتے ہیں تو خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری سے اور پھر یہ کوشش کریں گے کہ یہ کسی نہ کسی طرح پھر متحد ہو جائے۔‘‘ (مورخہ ۱۶؍مئی ۱۹۴۷ء الفضل)
پھر فرمایا: ’’بہرحال ہم چاہتے ہیں کہ اکھنڈ ہندوستان بنے اور ساری قومیں باہم شیروشکر ہو کر رہیں۔‘‘ (مورخہ ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء الفضل)
ان حوالہ جات سے ’’خلیفہ صاحب ربوہ‘‘ کے جذبات کی تصویر اور ان کی نیت کی عکاسی ہوتی ہے اور وہ اکھنڈ ہندوستان کے حامی ہیں۔ اب جب کہ اپنی تمناؤں اور امیدوں کو پاش