ہوتا ہے۔ پہلے نبی کے آگے دیوار کھینچ دی جاتی ہے اور کچھ نظر نہیں آتا سوائے آنے والے نبی کے ذریعہ دیکھنے کے۔ یہی وجہ ہے کہ اب کوئی قرآن نہیں سوائے اس قرآن کے جو حضرت مسیح موعود نے پیش کیا اور کوئی حدیث نہیں سوائے اس حدیث کے جو حضرت مسیح موعود کی روشنی میں دکھائی دے۔ اسی طرح رسول کریمﷺ کا وجود اسی ذریعہ سے نظر آئے گا کہ حضرت مسیح موعود کی روشنی میں دیکھا جائے۔ اگر کوئی چاہے کہ آپ سے آپ علیحدہ ہوکر کچھ دیکھ سکے تو اسے کچھ نظر نہ آئے گا۔ ایسی صورت میں اگر کوئی قرآن کو بھی دیکھے گا تو وہ اس کے لئے ’’یہدی من یشائ‘‘ والا قرآن نہ ہوگا بلکہ ’’یضل من یشائ‘‘ والا قرآن ہوگا۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۵؍جولائی ۱۹۲۰ئ)
اس ذہن کو سامنے رکھنے سے اسلام کے کسی ادنیٰ سے ادنیٰ حکم کی تنسیخ کی اہمیت کماحقہ واضح ہو جاتی ہے۔ چہ جائیکہ جہاد ایسا عظیم فریضہ جس کی ادائیگی میں کوتاہی بھی موجب عتاب الٰہی ہو اور عمداً اس سے کھسکنے والا ہو۔ اسلام کے ہاں منافق قرار پاتا ہے اور منکر فرضیت قطعی کافر، لیکن جو جہاد کو منسوخ کہے۔ اسے لغو اور بیہودہ فعل ثابت کرے۔ اسے بغیر کسی اشارے اور کنائے کے حرام قرار دے۔ دین کے لئے جہاد کرنے اور اس کا فتویٰ دینے والوں کو دشمن خدا اور منکر نبی کہے۔ کیا اس کے اور اسے ماننے والوں کے خارج از اسلام ہونے میں ذرہ برابر شک وشبہ کی گنجائش ممکن ہے؟
اسلام اور خاتم النبیین سے براہ راست تصادم
قرآن مجید کی کھلی تکذیب
مرزاغلام احمد قادیانی اور ان کی امت کے دائرہ اسلام سے خارج ہونے کی بیسویں دلیل یہ ہے کہ یہ بعض اہم مسائل بلکہ عقائد تک میں قرآن مجید کی نصوص قطعیہ کی تکذیب کے لئے مرتکب ہوئے ہیں۔ مرزاقادیانی اور ان کی امت کا رویہ بحیثیت مجموعی قرآن مجید کے بارے میں یہ رہا ہے کہ وہ صرف یہی نہیں کہ ان کے ہاں مرزاغلام احمد قادیانی کے الہامات اور آیات قرآنیہ کو ایک ہی حیثیت دی جاتی رہی ہے۔ بلکہ انہوں نے برملا اعلان کیا کہ وہ قرآن مجید کو مانتے ہی صرف اس لئے ہیں کہ قرآن مجید سے مرزاغلام احمد قادیانی کی نبوت ثابت ہوتی ہے۔
مرزاغلام احمد قادیانی کہتے ہیں:
:…
’’مجھے اپنی وحی پر ایسا ہی ایمان ہے جیسا کہ توریت، انجیل اور قرآن کریم پر۔‘‘
(اربعین نمبر۴ ص۱۹، خزائن ج۱۷ ص۴۵۴)