کا مقابلہ کرنا حقائق کا منہ چڑانا ہے۔ ضروریات دین کا انکار ہے کفر ہے۔ حقیقت کو مجاز، مجاز کو حقیقت صحیح کو ضعیف متواتر کو خبر واحد بنانا ہے۔ یہ تمام حقائق آپ کو اس مناظرہ میں نظر آئیں گے۔ آئندہ آپ خود سمجھ لینا کہ یہ مرزائی کن ہتھ کنڈوں سے کام لیتے پھرتے ہیں اور کیا کیا حیلے بہانے اور غلط پروپیگنڈے کر رہے ہیں۔ مگر ختم نبوت کی مہر توڑنا ان کے بس کا روگ نہیں۔
مسئلہ ختم نبوت کے خلاف
مرزائی مبلغ نے چار چیزوں سے استدلال کیا۔
اوّل… استدلال اس وقت کیا جب مبلغ اعظم نے خطاب الواحد بلفظ الجمع پر’’یاایہا الرسل کلوا من الطیبٰت واعملوا صالحاً‘‘ کی آیت پڑھی پ۱۸ المومنون آیت نمبر۵۲ کہ صرف صیغہ جمع سے استدلال نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ’’یا ایہا الرسل کلوا من الطیبٰت‘‘ میں رسل جمع ہے کلوا جمع ہے۔ ’’واعملوا‘‘ جمع حالانکہ حضور کے وقت میں آپ کے ساتھ کوئی رسول نہیں اور قیامت تک کسی نئے رسول کے آنے کا امکان نہیں اور انتظار نہیں اور پرانا کوئی آئے تو اس میں شمار نہیں۔ لہٰذا جمع سے استدلال غلط۔
دوسرا استدلال۔ ’’ام یحسدون الناس علی ما اتاہم اﷲ من فضلہ فقد آتینا آل ابراہیم الکتاب والحکمۃ واتیناہم ملکاً عظیماً‘‘ کی تفسیر میں اصول کافی کی ایک حدیث سے کیا۔
اور تیسرا ’’انعم اﷲ علیہم من النبیین والصدیقین والشہداء والصالحین‘‘ سے کیا۔
چوتھا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول سے کیا۔ ان شبہات کے جو جواب مبلغ اعظم نے ترکی بترکی دیئے۔ انشاء اﷲ ہم دلائل ختم نبوت جو مبلغ اعظم نے اس وقت دریا کی روانی کی طرح برسائے۔ ان کو نقل کرنے کے بعد نقل کریں گے۔
مسئلہ ختم نبوت اور مرزائی مغالطے
حضرات! ہم لوگ درس آل محمد کے طالب علم ہیں۔ مبلغ اعظم کے شاگرد ہیں۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ فن تقریر اور مناظرہ کے اصول بھی سیکھتے رہتے ہیں۔ سفر اور حضر میں بیان حکمت موعظہ حسنہ، جدل احسن کے اصول سنتے رہتے ہیں۔