کر سامنے آجاتے ہیں۔ سچا نبی اپنے زمانے کے تمام لوگوں سے ناقابل تصور حد تک رفیع المنزلت اور مستحق اکرام ہوتا ہے اور جھوٹا نبی اسی نسبت پست، ذلیل اور مستحق نفرت، اور چونکہ ان سطور کا راقم مرزاغلام احمد قادیانی کے کذب پر اسی طرح یقین رکھتا ہے۔ جس طرح شافع روز محشر فداہ ابی وامیﷺ کی صداقت پر ایمان لایا ہے۔ (واﷲ علیٰ مانقول شہید) اسی بناء پر اس کے دل میں مرزاغلام احمد قادیانی کی مخالفت ان کے بھڑکائے ہوئے جہنم بداعتقادگی سے خلق خدا کو بچانے اور ان کے ’’اینگلو انڈین صیہونی دین‘‘ کے نام ونشان کے مٹانے کی آرزو، اس حد تک قوی ہے کہ وہ حضرت وحشیؓ ابن حرب کی طرح اس کام کو اپنے اعمال سیۂ کے کفارہ اور رحمت، رؤف ورحیم جل وعلا کے حصول کا یقینی وسیلہ تصور کرتا ہے اور جلیل الشان صحابی رسول اﷲﷺ حضرت وحشیؓ ابن حرب کے ان الفاظ کو چالیس برس سے اپنے لئے مہمیز محسوس کئے ابطال قادیانیت میں مسلسل کوشاں ہے کہ جو انہوں نے عم رسولﷺ سیدنا حمزہؓ کو شہید کرنے کے کچھ عرصہ بعد بصد ندامت اور وفور جذبہ تلافی کے عالم میں مصرف القلوب اور موفق بالخیر رب رحیم کے حضور کہے تھے۔ انہوں نے بارگاہ رب العزت میں عرض کیا تھا کہ بار الہٰہ! جس طرح میرے ہاتھوں اسلام کا ایک عظیم فرزند اور لوائے محمدی کا جلیل الشان پاسبان شہید ہوا۔ رب ذوالجلال! توفیق عطا فرمائیو کہ میں کفر کے کسی اتنے ہی بڑے جرنیل کو واصل جہنم کر کے اس جرم عظیم کی تلافی کروں… اور مجیب الدعوات رؤف آقا نے یہ دعا اس طرح قبول فرمائی کہ ان وحشیؓ ابن حرب ہی کے ہاتھوں مسیلمہ کذاب کو واصل جہنم کیا۔
چیونٹی کو ہاتھی کی موت کاذریعہ بنانے والے رب غیور وقدیر سے ان کی رحمت کے صدقے یہی دعا ہے کہ وہ اس مجسم معصیت نابکار کو اس دوہرے فرض کی ادائیگی کی مبنی براخلاص وصدق توفیق سے نوازے کہ مرزاغلام احمد قادیانی کی دجالیت کے ابطال کی سعادت بھی حاصل ہو اور قادیانیوں کو دعوت اسلام کے ذریعہ رحمت ہر دوعالمﷺ کے دامن فلاح وکامرانی میں واپس لوٹانے کی کامیابی بھی بھی ودیعت ہو۔ ’’وما ذلک علی اﷲ بعزیز وعلیہ التکلان وھو ولی النعمۃ وھو ولی التوفیق‘‘
بدیہی حقائق کی روشنی میں
ایک جملہ اس وضاحت کے لئے کہ اس مختصر کتاب میں قادیانیوں کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ثابت کرنے کے لئے ایک طرز اختیار کیاگیا ہے۔ جسے بدیہی کہا جاسکتا ہے۔ یعنی وہ