شامل ہے۔ جس کی طرف توجہ کرنا وقتی ضروریات اور حالات کے مطابق لیڈر ان قوم کا فرض ہے… پس قوم کے پیش آمدہ حالات کو مدنظر رکھنا اور اس کی تکالیف کو دور کرنے کی تدبیر کرنا اور ملکی سیاست میں رہنمائی کرنا خلیفۂ وقت سے بہتر اور کوئی نہیں کر سکتا۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ کی نصرت اور تائید اس کے شامل حال ہوتی ہے اور اس زمانہ میں گزشتہ پندرہ سال کے تاریخی واقعات ہمارے اس بیان کی صداقت پر مہر لگارہے ہیں۔‘‘ (مورخہ ۲۵؍دسمبر ۱۹۳۲ء الفضل)
’’ہم میں سے ہر ایک شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ تھوڑے عرصہ کے اندر ہی (خواہ ہم اس وقت تک زندہ رہیں یا نہ رہیں۔ لیکن بہرحال وہ عرصہ غیر معمولی طور پر لمبا نہیں ہوسکتا) ہمیں تمام دنیا پر نہ صرف عملی برتری حاصل ہوگی۔ بلکہ سیاسی اور مذہبی برتری بھی حاصل ہو جائے گی۔ اب یہ خیال ایک منٹ کے لئے بھی کسی سچے احمدی کے دل میں غلامی کی روح پیدا نہیں کر سکتا۔ جب ہمارے سامنے بعض حکام آتے ہیں ہیں تو ہم اس یقین اور وثوق کے ساتھ اس کی ملاقات کرتے ہیں کہ کل یہ نہایت ہی عجز اور انکسار کے ساتھ ہم سے استمداد کر رہے ہوں گے۔‘‘
(مورخہ ۲۲؍اپریل ۱۹۳۸ء الفضل)
’’میں تو اس بات کا قائل ہوں کہ انگریزی حکومت چھوڑو دنیا میں سوائے احمدیوں کے اور کسی کی حکومت نہیں رہے گی۔ پس جب کہ میں اس بات کا قائل ہوں۔ بلکہ اس بات کا خواہشمند ہوں کہ دنیا کی ساری حکومتیں مٹ جائیں اور ان کی جگہ احمدی حکومتیں قائم ہو جائیں تو میرے متعلق یہ خیال کرنا کہ میں اپنی جماعت کے لوگوں کو انگریزوں کی دائمی غلامی کی تعلیم دیتا ہوں۔ کہاں تک درست ہوسکتا ہے۔‘‘ (مورخہ ۲۱؍نومبر ۱۹۳۹ء الفضل)
’’ہمیں نہیں معلوم ہمیں کب خدا کی طرف سے دنیا کا چارج سپرد کیاجاتا ہے۔ ہمیں اپنی طرف سے تیار رہنا چاہئے کہ دنیا کو سنبھال سکیں۔‘‘ (مورخہ ۴؍جون ۱۹۴۰ء الفضل)
’’انگریز اور فرانسیسی وہ دیواریں ہیں جن کے نیچے احمدیت کی حکومت کا خزانہ مدفون ہے اور خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ یہ دیوار اس وقت تک قائم رہے جب تک کہ خزانہ کے مالک جوان نہیں ہوجاتے۔ ابھی احمدیت چونکہ بالغ نہیں ہوئی اور بالغ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس خزانے پر قبضہ نہیں کر سکتی۔ اس لئے اگر اس وقت یہ دیوار گر جائے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ دوسرے لوگ اس پر قبضہ جما لیں گے۔‘‘ (مورخہ ۲۷؍فروری ۱۹۲۲ء الفضل)
حکومت احمدیوں کو ملے گی
ان حوالہ جات سے یہ امر ظاہر ہوتا ہے کہ خلیفہ صاحب ربوہ حصول حکومت کی تمنائیں