کرتے ہیں۔ اس لئے وہ کہتے ہیں کہ عیسیٰ سولی پر چڑھ گئے۔ انگلستان کا فاضل ’’جارج سیل‘‘ اس کے متعلق کہتا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت محمدﷺ نے یہ بات بتائی ہے۔ مگر یہ غلطی پر ہیں۔ کیونکہ حضرت محمدﷺ سے پہلے عیسائیوں کے بہت سے فرقے یہی عقیدہ رکھتے تھے کہ عیسیٰ علیہ السلام سولی پر نہیں چڑھے بلکہ ان کی بجائے کوئی اور سولی پر چڑھا۔ اس وقت آپ نے بہت سے فرقوں کے نام گنوائے جو اس کے قائل ہیں کہ کوئی اور ہم شکل سولی پر چڑھا۔ چونکہ اس بارہ میں خود ابتداء سے عیسائیوں میں اختلاف ہے۔ پس ان کا تواتر قومی نہ ہوا۔ یہی قرآن کہتا ہے اور یہی حق ہے کہ نہ وہ قتل ہوئے نہ سولی چڑھے۔ بلکہ ’’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ اس کی تفسیر کل کروںگا۔ انشاء اﷲ!
اجلاس اوّل (۲۰؍مارچ۱۹۲۱ئ) اتوار صبح۸؍بجے
جناب حافظ محمد طاہر دیوبندی نے تلاوت قرآن مجید فرمائی۔ بابو پیر بخش پنشنر پوسٹ ماسٹر وسیکرٹری انجمن تائید الاسلام لاہور نے اپنی مطبوعہ تقریر ’’اثبات حیات مسیح‘‘ پڑھی اور بہت سی کاپیاں جلسہ میں تقسیم کیں۔ تقریر دلچسپی سے سنی گئی اور پڑھی گئی۔ ان کے بعد:
مولانا ثناء اﷲ صاحبؒ مولوی فاضل ’’ایڈیٹر اخبار اہل حدیث امرتسر‘‘
’’قادیان اور ہم‘‘ قادیانی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ایک پرانا شعر ہے کہ ؎
چہ گوئم باتو گر چہ در قادیاں بینی
دوابینی، شفاء بینی، غرض دارالاماں بینی
اس وقت قادیان پرائمری کے درجہ پر تھا۔ آج کل چونکہ بی۔اے کے درجہ پر پہنچ چکا ہے۔ اس لئے اس شعر کا مصداق قرار پایا ہے۔
مظہر حق دیدہ ام گویا فرود آمد خدا
درشمار مکہ چوں نآید شمار قادیاں
لاہوری پارٹی کے اخبار ’’پیغام صلح‘‘ نے قادیان کو مکہ بنانے پر اعتراض کیا ہے۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ ایک مرزائی اخبار کا ایسا کہنا غلط ہے۔ کیونکہ مرزاقادیانی تو لکھتے ہیں۔ خدا قادیان میں نازل ہوا۔ (ازالہ اوہام ص۱۵۶، خزائن ج۳ ص۱۸۰) پس شاعر کو بجائے گویا کے کہنا چاہئے تھا۔ ’’حقا فردوآمد خدا‘‘ قادیان کیا ہے؟ القادیان، ما القادیان، وما ادراک ما القادیان؟ مرزاقادیانی (ازالہ اوہام ص۷۶، خزائن ج۳ ص۱۴۰) پر لکھتے ہیں کہ: ’’میں نے کشف میں