اگر اپنے گھر کی کوٹھری میں گھسے رہنا اور اپنے حریف مقابل سے انجر پنجر تڑوا بیٹھنا اسی کا نام عظیم الشان فتح ہے تو معلوم نہیں شکست فاش کس جانور کا نام ہے۔ ہمارا ارادہ ہے کہ مرزاقادیانی کی تمام چھوٹی بڑی پیش گوئیوں پر ایک کتاب لکھیں۔ مگر اس وقت ہم ان کی وہ تین عظیم الشان پیش گوئیاں یہاں درج کرتے ہیں۔ جن پر ان کو فخر وناز اور ان کی نبوت کا دارومدار ہے۔ گو کہ نبوت کے ثبوت میں پیش گوئیاں کچھ چیز نہیں ہیں۔
پیش گوئی اوّل
مرزاقادیانی (شہادۃ القرآن ص۷۹،۸۰، خزائن ج۶ ص۳۷۵،۳۷۶) پر لکھتے ہیں: ’’منشی عبداﷲ آتھم کی نسبت پیشین گوئی یعنی موت جس کی میعاد مورخہ ۵؍جون ۱۸۹۳ء سے شروع ہوتی ہے۔ پندرہ مہینے تک اور پنڈت لیکھ رام پشاوری کی موت کی نسبت پیش گوئی جس کی میعاد ۱۸۹۳ء سے ۶سال ہے اور پھر مرزااحمد بیگ ہوشیارپوری کے داماد کی موت کی نسبت پیش گوئی جو پٹی ضلع لاہور کا باشندہ ہے۔ جس کی میعاد کے آج کی تاریخ سے ۲۱؍ستمبر ۱۸۹۳ء تقریباً گیارہ ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ تمام پیش گوئیاں جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہیں۔ ایک صادق یا کاذب کی شناخت کے لئے کافی ہیں۔ کیونکہ احیاء واماتت دونوں خداتعالیٰ کے اختیار میں ہیں اور جب تک کوئی شخص نہایت درجہ کا مقبول نہ ہو۔ خداتعالیٰ اس کی خاطر سے اس کے دشمن کو اس کی دعا سے ہلاک نہیں کر سکتا۔ خصوصاً ایسے موقعہ پر کہ وہ شخص اپنے تئیں منجانب اﷲ قرار دیوے اور اپنی اس کرامت کو اپنے صادق ہونے کی دلیل ٹھہراوے۔ سو پیش گوئیاں کوئی معمولی بات نہیں جو انسان کے اختیار میں ہو۔ بلکہ محض اﷲ جل شانہ کے اختیار میں ہیں۔ سو اگر کوئی طالب حق ہے تو ان پیش گوئیوں کے وقتوں کا انتظار کرے۔‘‘
۱… پہلی پیش گوئی کا مرجع ومحل ایک عیسائی شخص تھا۔ جو پنشنر تھا اور ۶۸یا ۶۹ برس یعنی ارذل العمر کی حالت میں پہنچ کر بخار، نزلہ، کھانسی وغیرہ بیماریوں کا ہدف بن کر آج مرے کل، دوسرا دن کا مصداق تھا۔ ۱۵ماہ کے اندر مر جانا گو عقلمند لوگ خوب جانتے ہیں کہ یہ تخمینہ مرزاقادیانی کے زعم سے اگر چند یوم نہیں تو چند ماہ سے بڑھ کر نہیں تھا۔ چنانچہ اثناء بحث مباحثہ میں جس کو مرزاقادیانی ’’جنگ مقدس‘‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ عیسائی مذکور ایک دو دن بیماری کے باعث حاضر بھی نہیں ہوا تھا۔ مگر دوربینی اور عاقبت اندیشی کے طور پر مرزاقادیانی نے اس کو ۱۵ماہ کی مہلت دے دی۔ اگرچہ کوئی شخص جسے اپنی زندگی کے دن پورے کرنے ہیں۔ بغیر پورے کئے مر نہیں سکتا۔ بقول سعدیؒ ؎