اور سنو فرماتے ہیں۔ حجاز میں ریلوے کا بننا میری پیش گوئی ہے۔ مگر خدا کی شان وہ ریلوے بنی ہی نہیں۔ خبر نہیں اﷲ میاں کو محبت تو مرزاقادیانی سے ہے۔ مگر کرتا ہے اس کے خلاف ہے۔ مرزاقادیانی کہتے رہے کہ قادیان میں طاعون نہیں آئے گا۔ مگر خدا نے بھیج دیا ؎
بنے کیونکر کہ ہے سب کار الٹا
ہم الٹے بات الٹی یار الٹا
تقریر مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی ؒ
آپ نے فرمایا کہ نماز عصر کا وقت قریب ہے۔ لہٰذا ختم نبوت پر مختصراً کچھ بیان کروںگا۔ صاحبان! اگرچہ لاہوری جماعت تو نہیں۔ مگر قادیانی جماعت مرزاقادیانی کو نبی مانتی ہے۔ وہ کہتی ہے۔ ختم کے معنی ہیں مہر لگادینا۔ جس پر رسول اﷲﷺ اپنی پابندی کی مہر لگائیں۔ وہ نبی ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ان کا قول ہے کہ ’’اھدنا الصراط المستقیم‘‘ جو نماز میں پڑھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب انعام والے لوگ نبی، صدیق، شہید صالح ہیں۔ اگر نبی نہیں ہوسکتا تو دعا کیوں مانگتے ہو۔ جو کامل تابعداری کرے نبی ہوسکتا ہے۔ مرزاقادیانی بھی فنا فی الرسول ہوکر نبی ہوگئے۔ یہ مغالطہ ہے۔
’’اھدنا الصراط المستقیم‘‘ کا مطلب ومنشاء ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے راستے پر قائم رکھ۔ نہ کہ نبوت کا منصب عطاء کر۔
سب جانتے ہیں کہ حضرت علیؓ حضورﷺ کے کامل تابعدار تھے۔ غزوۂ تبوک میں جب حضرت محمدﷺ تشریف لے چلے تو حضرت علیؓ کو گھر کے انتظام کے لئے رکھا۔ حضرت علیؓ نے کہا۔ میں کوئی عورت ہوں۔ جو مجھے جنگ میں جانے سے روکا جاتا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا۔ ’’اماتری یا علی(b) ان تکون منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ‘‘ {یعنی اے علیؓ تو راضی نہیں کہ تیری میری نسبت ہارون وموسیٰ علیہم السلام کی ہو۔} وہ نسبت کہ جب موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر چلے ہیں تو حضرت ہارون علیہ السلام کو خلیفہ مقرر کر گئے تھے۔ اسی طرح تبوک میں جاتے ہوئے حضورﷺ نے حضرت علیؓ کو خلیفہ بنایا۔ چونکہ خدا کو معلوم تھا کہ ایک زمانہ میںکوئی کہنے والا ہوگا کہ کامل تابعداری سے نبی بن سکتا ہے۔ اس لئے کہہ دیا کہ ’’الاّ انہ لا نبی بعدی‘‘ کہ اے علیؓ تم خلیفہ ہو اور جان لو کہ نبی میرے بعد کوئی نہیں ہوگا۔
مرزائیوں کی طرف سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبوت سے معزول