خلیفہ صاحب کو یہ کلی اختیار ہے کہ جماعتوں کے منتخب شدہ ممبروں کو جسے چاہیں، بولنے کا موقع دیں اور جسے چاہیں ان کے حق سے بالکل محروم کر دیں۔ اس مجلس کا انعقاد سال میں ایک دفعہ ہوتا ہے۔ تمام آمدہ سال کی پالیسی کو زیرغور لایا جاتا ہے اور بجٹ کی منظوری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بجٹ منظور کئے بغیر ہی خلیفہ صاحب یہ فرمادیا کرتے ہیں کہ میں خود ہی بجٹ پر غور کر کے منظوری دے دوں گا۔ ان امور سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مجلس شوریٰ کو کوئی اختیار حاصل نہیں۔ یہ صرف دکھاوے کے لئے ڈھانچہ ہے۔
انتظامیہ
اس کے بعد میں خلیفۂ قادیان کی انتظامیہ کے متعلق کچھ عرض کروں گا اور بہتر یہی ہے کہ خلیفۂ قادیان کے حوالہ ہی من وعن نقل کر دئیے جائیں۔ جس میں انتظامیہ کی ضرورت، کیفیت اور ماہیت کا تفصیلی نقشہ موجود ہے۔
خلیفہ صاحب فرماتے ہیں: ’’تیسری بات اس تنظیم کے لئے یہ ضروری ہو گی کہ اس کے مرکزی کام کو مختلف ڈیپارٹمنٹوں میں اس طرح تقسیم کیاجائے۔ جس طرح کہ گورنمنٹوں کے محکمے ہوتے ہیں۔ سیکرٹری شپ کا طریق نہ ہو۔ بلکہ وزراء کا طریق ہو۔ ہر ایک صیغہ کا ایک انچارج ہو۔‘‘ (مورخہ ۱۸؍جولائی ۱۹۲۵ء الفضل)
اس انتظامیہ کو نظارت کہا جاتا ہے اور ہر وزیر کو ناظر اور ان کی نام زدگی خلیفہ صاحب کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ خلیفہ صاحب فرماتے ہیں: ’’ناظر ہمیشہ میں نامزد کرتا ہوں۔‘‘
(مورخہ ۲۴؍اگست ۱۹۳۷ء الفضل)
خلیفہ صاحب آخری سپریم کورٹ
یہ نظارت اپنے سارے کام خلیفہ کی نیابت میں سرانجام دیتی ہے۔ ہر فیصلہ کی اپیل خلیفہ صاحب سنتے ہیں اور انہیں کا آخری فیصلہ ہوتا ہے۔ یہ اپنے قواعد وضوابط خلیفہ کی منظوری کے بغیر تبدیل نہیں کر سکتے اور اس کے فیصلوں کی تمام ذمہ داری خلیفہ پر ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ ’’نظارت‘‘ خلیفہ کی نمائندہ ہوتی ہے۔ خلیفہ صاحب خود ہی فرماتے ہیں: ’’صدر انجمن جو کچھ کرتی ہے چونکہ وہ خلیفہ کے ماتحت ہے۔ اس لئے خلیفہ بھی اس کا ذمہ دار ہے۔‘‘ (مورخہ ۲۳؍اپریل ۱۹۳۸ء الفضل)