لوگ ایک ہفتہ کے لئے اپنے ذمہ لیں گے۔ اگر ایک ہفتہ میں تصفیہ نہ ہوا تو پھر دوسرے اور تیسرے ہفتہ کے لئے انتظام کیا جاسکے گا۔
مولانا ابوالوفا ثناء اﷲؒ
نے فرمایا کہ رام پور ریاست میں نواب صاحب کے سامنے حیات مسیح علیہ السلام کو میں نے ثابت کرایا تھا۔ اس پر نواب صاحب ریاست موصوف کی سند ہائے شہادت موجود ہے۔ میں نے بمقام لدھیانہ، رام پور اور دہلی میں مناظرے ان سے کئے اور بفضلہ ان کو زک دی اب اگر یہ چاہیں تو مرزامحمود کو لائیں۔ یا کسی ایسے کو جو قادیانیوں کو مفید ہو۔ جس کی ہار جیت مرزاقادیانی کی ہارجیت سمجھی جاوے۔
حاجی عبدالغنی ؒ
سیکرٹری لیگ نیز مسلم ایسوسی ایشن بٹالہ نے کہا کہ ایک قادیانی عزیز کا خط آیا۔ میں ان کو چیلنج دیتا ہوں کہ وہ تیار ہو جاویں۔ میں انتظام بٹالہ میں کر سکتا ہوں۔
اجلاس دوم (۲۰؍مارچ۱۹۲۱ئ) اتوار بعد نماز ظہر
اس وقت مولانا حبیب الرحمنؒ صدر کے تشریف نہ رکھنے کی وجہ سے مولانا نور احمد امام مسجد جامع شیخ بڈھا صدر قرار پائے اور جناب حکیم ابوتراب محمد عبدالحق نے اپنا نوشتہ مضمون پڑھا۔ جس میں بتایا کہ مرزاقادیانی کا دعویٰ تھا کہ میں (مرزاقادیانی) اور مولوی ثناء اﷲ میں سے جو جھوٹا ہوگا۔ وہ سچے کی زندگی میں مر جاوے گا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ قادیان میں مرزاقادیانی مدفون ہیں اور مولوی ثناء اﷲ زندہ۔ تقریر فرمارہے ہیں۔ وغیرہ ان کے بعد
منشی حبیب اﷲؒ صاحب ملازم نہر نے بھی مرزاقادیانی کے الہامات میں عمدہ طریق سے تناقض وتخالف دکھایا اور یہ ثابت کیا کہ جس کی ایک بات دوسری بات کا رد کرتی ہو اس کی کون سی بات مانی جاسکتی ہے۔ وغیرہ ان کے بعد
مولانا مرتضیٰ حسن مراد آبادی (چاند پوریؒ)
نے تقریر کی۔ حمد وصلوٰۃ کے بعد فرمایا صاحبان آپ نے مولوی ثناء اﷲؒ اور دیگر علماء کرام کے وعظ اور تقریریں سنیں۔ مولوی ابراہیم صاحبؒ نے رفع عیسیٰ پر جو تقریر کی عمدہ اور عالمانہ تھی۔ میں ایک چھوٹی بات عرض کرتا ہوں۔ سنئے!