مدت نزول عذاب مقرر کی جاوے تو میں قسم کھانے کو تیار ہوں۔ مگر اس تقریر سے قادیانیوں کی یہ حالت تھی کہ: ’’چناں خفتہ اند کہ گوئی مردہ اند۔‘‘ جب صدائے برنخاست کا معاملہ نظر آیا تو مولانا ابوالوفاء ثناء اﷲ اٹھے اور فرمایا احمدی دوستوں کے روپے کے لئے نہیں بلکہ رفع شک کے لئے اور اتمام حجت کے لئے میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام (جیسا کہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے) زندہ ہیں اور مرزاقادیانی کا دعویٰ غلط ہے۔ ان کے بعد مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹیؒ نے بھی ایسے ہی الفاظ میں قسم کھائی کہ جن ۳۰دجالوں کی خبر حدیث میں ہے۔ ان میں سے ایک ہم مرزاقادیانی کو مانتے ہیں کہ وہ بھی انہی کی طرح جھوٹا ہے۔
مولانا عبدالشکور لکھنویؒ ایڈیٹر النجم لکھنؤ کی تقریر
مولانا محمد ابراہیمؒ کے بعد مولانا موصوف نے مختصر مگر مؤثر تقریر کی۔ چنانچہ مرزاقادیانی کی غلط بیانیوں، توہین انبیاء اور مرزاقادیانی کی اپنے منہ سے اپنی برتری کا ظاہر کرنا دکھایا۔ اس کے مقابلہ میں حضورﷺ کے اخلاق وایثار کا تذکرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو پابندیٔ صوم وصلوٰۃ کی تاکید کی۔
صدر جلسہ کی اختتامی تقریر
صاحب صدر نے فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ یہ جلسہ اسلامیہ نہایت کامیابی اور امن سے ہوا۔ بھائیو! آپ نے علماء کی تقریریں اور وعظیں سنیں۔ جو حق وصداقت پر مبنی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ان کے اثرات ہمیشہ ظاہر ہوتے رہیں گے اور ہدایت کے لئے یہ بہت مفید ومؤثر ثابت ہوںگے۔ میں چاہتا ہوں کہ بقدرے امکان ان کا خلاصہ آپ کے سامنے دہراؤں۔
آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ خدا نے جو ہدایت مجھ کو دی اس کی مثال بارش کی سی ہے۔ بارش رحمت ہے۔ مگر اس کا اثر ہر جگہ ایک جیسا ہی نہیں ہوتا۔ایک خطہ اچھا ہے۔ وہ عمدہ چیزیں اگاتا ہے۔ ایک وہ ہے کہ وہ خود تو کچھ نہیں اگاتا مگر بارش کا پانی اپنے اندر جمع کر کے دوسروں کو نفع پہنچاتا ہے اور ایک قسم ایسی ہے نہ خود کچھ پیدا کرتی ہے نہ دوسروں کو نفع پہنچاتی ہے۔ ایسا ہی انسانوں کے مدارج میں تفاوت ہے حضرات علماء کی تقاریر سے ختم نبوت ثابت ہوچکی اور مرزاقادیانی کے دعوے کی تغلیط بھی کافی ہوگئی۔ اب میں آپ کو رسول اﷲﷺ کا راستہ بتاتا ہوں۔ جس کی نسبت ارشاد ہے کہ اس کا دن اور رات برابر ہیں۔ حضورﷺ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی قرآن کو مانے اور حدیث سے انکار کرے تو وہ بھٹکا ہوا ہے۔