دوست نے وعدہ کیا ہے کہ اگر مکہ میں مکان لیا جائے تو وہ پچیس ہزار روپیہ مکان کے لئے دیں گے۔ پس شیطان کے مقابلہ میں پوری طاقت سے کام لیں اور میری اس نصیحت کو یاد رکھیں۔‘‘
(الفضل مورخہ ۸؍جنوری ۱۹۲۰ئ)
قادیانیوں کے یہ عزائم بجائے خود ایک مسلمان کے لئے بہت بڑا چیلنج تھے۔ مگر ان عزائم کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے قادیانیوں نے جو طریق کار اختیار کیا اور عملاً جو سیاسی اقدامات اس گروہ نے گذشتہ نوے برس میں کئے۔ ان کی شہادت یہ ہے کہ قادیانی امت عالم اسلام کے خلاف دشمنان اسلام کے آلہ کار کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس الزام کے بعد شواہد سے آگہی کے لئے اس عنوان کے پس منظر کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیے۔
مکہ مکرمہ میں قادیانی مشن کا پس منظر
یہ بات باعث عبرت بھی ہے اور عالم اسلام نیز مخلص قادیانیوں کے لئے ذریعہ موعظت بھی کہ ۱۹۲۰ء میں مرزاغلام احمد قادیانی کے بیٹے اور خلیفہ دوم نے مکہ معظمہ اور پورٹ سعید میں قادیانی مشن کھولنے کے لئے جس جوش وخروش کا اظہار کیا اس کا پس منظر یہ ہے کہ جنگ عظیم اوّل ۱۹۱۴ء تا۱۹۱۷ء میں قادیانی امت نے برطانیہ عظمیٰ کی پرخروش حمایت کی۔ آغاز جنگ ہی کے مرحلہ میں مرزامحمود نے گورنر پنجاب کے نام ایک خط میں کامل وفاداری کا اظہار بھی کیا اور یہ بھی لکھا کہ میں نے اپنی جماعت کو حکم دیا ہے کہ ملک معظم برطانیہ کا مکمل ساتھ دیا جائے۔
(الفضل قادیان مورخہ ۲۹؍نومبر ۱۹۱۴ئ)
۱۹۱۹ء میں جب کفار کی فوجوں نے عالم اسلام کے متعدد ممالک پر کاملاً یا جزواً تسلط حاصل کر لیا اور بے شمار مسلمانوں کو انتہائی درندگی سے ذبح کیا اور عملاً شام، عراق، افغانستان، ترکی پر اپنا سیاسی استیلاء مکمل کر لیا تو قادیان میں انگریزوں کی فتح پر جشن مسرت منعقد کیاگیا اور یہاں تک اعلان کیاگیا کہ: ’’ہماری گورنمنٹ (یعنی قادیانیوں کی مہربان برطانوی گورنمنٹ) نے جو بصرہ کی طرف چڑھائی کی اور تمام اقوام سے لوگوں کو جمع کر کے اس طرف بھیجا۔ دراصل اس کے محرک اﷲتعالیٰ کے وہ فرشتے تھے جن کو گورنمنٹ کی مدد کے لئے اس نے اپنے وقت پر اتارا کہ وہ لوگوں کے دلوں کو اس طرف مائل کر کے ہر قسم کی مدد کے لئے تیار کریں۔‘‘
(الفضل قادیان مورخہ ۷؍دسمبر ۱۹۱۸ئ)