حافظ یہاں بیٹھے ہیں۔ بتلائیں کیا آپ نے قرآن پاک میں کہیں دیکھا ہے؟ (سب نے کہا قرآن میں کہیں نہیں) ’’انا انزلناہ قریباً من القادیان‘‘ وہاں مرزاقادیانی والے، قرآن میں ہو تو ہو۔
مولانا ثناء اﷲؒ کی تقریر
نماز عصر کے بعد بہت سے سکھ اصحاب نے یہ خواہش ظاہر کی کہ ہم دو ر دراز سے آئے ہیں اور مولوی ثناء اﷲ کے منہ سے کچھ سننا چاہتے ہیں۔ ان کے اصرار پر مولوی صاحب کھڑے ہوئے اور انہوں نے خدا پر ماتما، ست سری اکال کی پرستش کرنا اس کے حکم ماننا، اس کی رضا پر چلنا اور چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے اس کا نام جپنا (ذکر کرنا) برائیوں سے بچنا اور سب کے حقوق ادا کرنا پر ایک مختصر مگر مؤثر پنجابی زبان میں تقریر کی۔ سکھ بھائی سن کر بہت خوش ہوئے۔
تقریر مولانا سید انور شاہ کشمیریؒ
اوّل مدرس دارالعلوم دیوبند نے ساڑھے پانچ بجے شام کے تقریر فرمائی۔ تقریر عالمانہ اور مدلل تھی۔ اس لئے رپورٹروں نے جناب شاہ صاحبؒ سے عرض کیا کہ آپ خود قلمبند فرماکر بھیجوادیں۔ مختصر بلکہ نہایت اقل خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور آیت میں ’’توفی‘‘ لفظ ماضی نہیں بلکہ مضارع ہے اور توفی کے معنی جو مارنے کے کئے جاتے ہیں۔ قرآن مجید میں بھی ایک جگہ ایسا نہیں۔ لغت والے اس کے معنی شے کو پورا لے لینا یا پوری مدت پر لے لینا لکھتے ہیں۔ وغیرہ!
اس کے بعد مولانا ثناء اﷲؒ نے کہا کہ مولوی ابراہیم سیالکوٹیؒ نے کل مرزائی جماعت کو چیلنج دیا تھا۔ مگر ڈپٹی صاحب (منتظم افسر) نے یہاں (قادیان میں) اجازت نہیں دی۔ اگر مرزائی صاحبان اور خواہش رکھتے ہیں تو مولوی ظفر الحق بٹالہ میں انتظام کردیں گے۔ وہ مباحثہ کر لیں۔ اس کے بعد اجلاس ختم۔
اجلاس اوّل (۲۱؍مارچ۱۹۲۱ئ) سوموار بوقت صبح۸؍بجے
اوّل قاری محمد طیبؒ پھر مولوی محمد طاہر دیوبندی نے خوش الحانی سے تلاوت قرآن مجید فرمائی۔ اس کے بعد کاروائی شروع ہوئی۔
تقریر مولوی بدر عالم میرٹھیؒ
مولوی صاحب نے ’’بل نقذف بالحق علی الباطل فید مغہ فاذا