لاہوری قادیانیوں کے لئے ایک لمحہ فکریہ
محمد علی ایم۔اے نے جو کچھ کہا درست ہے اور یہ ادنیٰ سا اظہار تأثر ہے جو مرزامحمود کی ایمان سوز جسارت پر ناگزیر تھا۔ لیکن مولوی محمد علی اور ان کے پیروکاروں کے سوچنے کی بات یہ بھی تھی کہ مرزامحمود نے ’’سید ولد آدم بآبائنا ھو وامہاتنہاﷺ‘‘ کی شان اقدس میں جو گستاخی کی۔ اس کی اصل محرک اور بنیاد تو مرزاغلام احمد قادیانی کے وہ کافرانہ تصورات ہیں۔ جن کے باعث اس نے ختم نبوت کے عقیدہ کو ’’لغو اور باطل عقیدہ‘‘ اور اسلام کو ’’شیطانی دین‘‘ کہا۔ اگر کوئی شخص اسلام اور ختم نبوت کے بارے میں یہ تک کہنے کی جرأت کر سکتا ہے تو حضورﷺ کا ناموس کب تک اس کی دست درازی سے محفوظ رہے گا؟ مرزامحمود نے جو کچھ کہا یہ تو اس شچرہ خبیثہ کا زہریلا پھل تھا۔ جو مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنے اور امت کے قلوب کی زمین میں گاڑا۔ اس شجر کی آبیاری اور اس کے زہریلے اور کڑوے پھل سے اظہار بیزاری، یہ تضاد بجائے خود اس حقیقت کا مظہر ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی کو پیشوا ماننے کی کم ازکم سزا یہ ہے کہ اس کا ذہن الٹا ہو جائے اور وہ تضادات کا خوگر ہو جائے۔ ’’نعوذ باﷲ من غضبہ وعقابہ وشرعبادہ‘‘
بہرنوع مرزاغلام احمد قادیانی اور مرزامحمود احمد قادیانی نے حضور امام الانبیائﷺ کی شان اقدس میں جو ساقیانہ اور اسلام سوز گستاخی ان تحریروں میں کی ہے اور اس کے بعد بھی ان کا اسلام محفوظ ومقبول ہے تو کہنا چاہئے کہ اسلام میں عظمت رسالت اور عصمت نبوت دونوں کا یا تو کوئی تصور ہی موجود نہیں اور اگر ہے تو ان کی حفاظت کا اہتمام نہیں۔ جو بدباطن جس طرح چاہے شان رسالت میں گستاخی کا مرتکب ہو اور جس انداز سے اس کا جی کرے ناموس رسالت سے کھیلے۔ اس پر کوئی قدغن نہیں اور اگر (خدانخواستہ) یہ بات تسلیم کر لی جائے تو اسلام کو دین حق ماننے کا نظریہ ہی سرے سے باطل ہے۔
ناموس رسول اﷲﷺ پر دھاوا
مرزاغلام احمد قادیانی اور قادیانی امت کے کفر کی پانچویں وجہ مرزاغلام احمد قادیانی کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ تمام خصوصیات وامتیازات اور مقامات ودرجات جو حضور سید ولد آدم امام الانبیاء محمد مصطفیﷺ کی ذات اقدس سے مخصوص تھے۔ میں بھی ان تمام کا اہل ہوں اور بقول مرزاغلام احمد قادیانی وحی الٰہی نے یہ مقام اسے دیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
مرزاقادیانی کا دعویٰ ہے کہ بارگاہ قدس سے اسے مخاطب کر کے کہا گیا: