متنفر دنیا کی حکومتوں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ ہر اقلیت کو اپنے فکر وعقیدہ کے اظہار کا حق دیا جائے گا۔ (اگرچہ ان میں سے کوئی بھی نظریاتی (مثلاً کمیونسٹ حکومت عملاً) کسی مذہب کے ماننے والوں کو اس حق کے استعمال کی اجازت نہیں دے رہی)
یہ اور اس کے متعدد معاشرتی اجتماعی اور سیاسی مسائل اور الجھنیں پیدا کرنے والے گروہ کے بارے میں اسلام ایسے جامع اور انجام پر نگاہ رکھنے اور خلق خدا کو ہر اعتقادی فتنے اور عملی فساد سے محفوظ رکھنے کو اہم تر مقصد قرار دینے والے دین کا فیصلہ کیا ہونا چاہئے؟ یہ ہے وہ اہم سوال جس کے جواب کی آسانی کے لئے ہم نے اس کتاب کی تالیف ضروری سمجھی۔
قادیانیوں کو پھر سے دعوت اسلام
لیکن یہ مقصد اس وقت تک ادھورا اور نامکمل رہے گا۔ جب تک ہم اس کے دوسرے رخ پر ویسی ہی توجہ نہ دیں۔ جس کا اظہار ہم نے اس پہلے رخ کے بارے میں کیا اور یہ ہے اس مسئلے کا یہ پہلو کہ جو لوگ قادیانیت قبول کر چکے ہیں اور ہمارے نزدیک وہ ان حق کی برکتوں سے محروم ہوئے۔ اسلام کے سایہ امن ورحمت سے بھاگ کر ارتداد کے ہولناک الاؤ میں کود پڑے۔ اس دنیا میں محمدﷺ کی امت سے خارج قرار دئیے گئے اور آخرت میں حضورﷺ کی شفاعت سے محرومی کا شکار ہیں۔
یہ نسب ونسل کے اعتبار سے ہم جیسے ہی ہیں۔ کل تک یہ ہمارے بھائی تھے۔ آج بھی ہم ان سے سابق رشتے کی بناء پر یک گونہ اقلیتی تعلق رکھتے ہیں۔ ہمیں اس تصور ہی سے دہشت ہوتی ہے کہ ہمارے لاکھوں بھائی بند، ان محرومیوں کا شکار ہوئے۔ ان میں سے بعض بڑے محنتی ہیں۔ ان کی ایک اہم تعداد اخلاص کے ساتھ محنت کرتی ہے۔ وہ ارتداد کو دین سمجھنے کے ہولناک مغالطے میں مبتلا ہونے کے باوجود اس وجہ سے انسانی جذبات کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے اس نئے دین کے فروغ کے لئے بڑی مخلصانہ کوششیں کی ہیں۔ ان میں سے بہت سوں نے اپنی اولاد کو قادیانیت کی اشاعت کے لئے وقف کیا۔ ان میں سے بعض نے رشتوں ناتوں کے ٹوٹنے، لعن طعن برداشت کرنے اور دنیوی مصائب اور مشکلات جھیلنے میں ثبات قدمی کا مظاہرہ کیا۔ کیا ہم انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں؟ کیا ہم ان سے اظہار بریت پر اکتفا کرتے ہوئے یا ان کے خلاف نفرت کا اندازہ اختیار کر کے یہ سمجھ لیں کہ ہم نے سیدنا آدم علیہ السلام کی اولاد ہونے کے رشتے کا حق ادا کردیا؟