وامین (ہمارے ماں باپ اور ہماری جانیں، حضور پر قربانﷺ) کی صداقت وامانت کی گواہی ابوجہل نے بھی دی تھی؟ اس شخص کی یہ جسارت اور سب پہلو چھوڑئیے، کیا اس قابل ہے کہ اسے مسلمان ٹھنڈے دل سے برداشت کریں؟ اور اگر کوئی مسلمان حاکم، اپنے جذبات پر ہر پہلو سے قابو پاکر نہ تو اس بات کے کہنے اور شائع کرنے والے کو سزا دے اور نہ ہی اس پر کی جانے والی کسی قسم کی مراعات میں کمی کرے بلکہ صرف اتنے پر اکتفاء کرے کہ اس ناپاک پمفلٹ کو ضبط کردے۔ جس میں اس نوع کی ناقابل برداشت اشتعال انگیزی پائی جاتی ہو تو کیا اس حاکم کا یہ اقدام ایسا ہے کہ اس کے خلاف محاذ قائم کر دیا جائے اور اندرون وبیرون ملک اس کے خلاف نفرت، اشتعال اور اظہار غیض وغضب کا اظہار کیا جائے اور اپنے حلقے کے لوگوں کو اسی طرح پھانسیوں پر چڑھنے اور جانی قربانی پیش کرنے کی تلقین کی جائے۔ جس طرح کابل میں دو قادیانیوں نے، وہاں کی مسلمان حکومت کے خلاف سازش کا ارتکاب کیا اور جہاد ایسے اساسی واہم ترین اسلامی حکم کو منسوخ کہنے کی جسارت کی اور حکومت نے مجبوراً ان کو قتل کی سزا دی۔
ایک غلطی کا ازالہ سے بھی زیادہ اشتعال انگیز
بجا طور پر ہم سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا قادیانی لٹریچر میں ’’ایک غلطی کا ازالہ‘‘ وہ واحد پمفلٹ ہے جس میں رحمت دوعالم، سرورکونین، سید الرسل، خاتم النبیینﷺ فداہ ارواحنا وانفسنا کی (نارش بدہن) توہین کی گئی ہے۔ ہم بلا تأمل اعتراف کرتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ قادیانی لٹریچر میں کھلم کھلا یہ کہاگیا ہے کہ:
محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیاں میں
(پیغام صلح مورخہ ۱۴؍مارچ ۱۹۱۴ئ، بدر نمبر۶۳ ج۲ مورخہ ۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۶ء ص۱۴)
’’اور جان کہ ہمارے نبی کریمﷺ جیسا کہ پانچویں ہزار میں مبعوث ہوئے۔ ایسا ہی مسیح موعود کی بروزی صورت اختیار کر کے چھٹے ہزار کے آخر میں مبعوث ہوئے اور یہ قرآن سے ثابت ہے۔ اس میں انکار کی گنجائش نہیں اور بجز اندھوں کے کوئی اس معنی سے منہ نہیں پھیرتا۔ کیا آخرین منہم کی آیت میں فکر نہیں کرتے اور کس طرح منہم کے لفظ کا مفہوم محقق ہو۔ اگر رسول کریم